Wednesday, 18 December 2013

غزل : ہر اِک گھر کی ضرورت ہو گئی ہے

غزل

ہر اِک گھر کی ضرورت ہو گئی ہے
یہ دنیا ایک عورت ہو گئی ہے

میں لفظوں کے سفر میں ڈھونڈھتا ہوں
غزل میری ضرورت ہو گئی ہے

ہے اپنی سادگی میں بھی دھنک رنگ
وہ لڑکی خوبصورت ہو گئی ہے

ملی ہے بھیک کی مانند اکثر
مجھے شہرت سے نفرت ہو گئی ہے

مرے گھر میں ہے بوڑھی ایک دادی
جو اب مٹی کی مورت ہو گئی ہے

میں خدّ و خال اپنے بیچتا ہوں
یہی جینے کی صورت ہو گئی ہے

کہاں اب گھر بناؤ گے تم اپنا
دلوں میں تو کدورت ہو گئی ہے

راشدؔ فضلی
________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Friday, 22 November 2013

غزل : زباں جب خود سے بڑھ کر ہانکتی ہے

غزل

زباں جب خود سے بڑھ کر ہانکتی ہے
تو عزت اس کی مٹی پھانکتی ہے

وہ دیکھو سامنے ہے گھر ہمارا
اداسی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے

بنا کر مجھ کو اپنا اک کھلونا
مری قسمت مجھی کو آنکتی ہے

یہ کالی رات کالے گیسوؤں سے
مرے سارے بدن کو ڈھانکتی ہے

عروس فن بصیرت چاہتی ہے
مناظر کھڑکیوں پر ٹانکتی ہے

لبوں پر پیاس کا صحرا بچھائے
محبت مجھ کو کیسا آنکتی ہے

اسی کو شاعری کہتے ہیں راشد
جو زلفوں میں ستارے ٹانکتی ہے

راشد فضلی

 ___________________________________

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, 7 November 2013

غزل : میری اپنی بات تھی، وہ تو بے وفا نہ تھا

غزل

میری اپنی بات تھی، وہ تو بے وفا نہ تھا
میں زبان کھولتا اتنا حوصلہ نہ تھا

لفظ لفظ بوسہ بن کے چومتا تھا اس کا نام
جو غزل کی جان تھا پر وہ آشنا نہ تھا

تھا فریب لفظ کا قلب اور زباں کے بیچ
بات ساری اس میں تھی میں نے جو کہا نہ تھا

ہے مزاج سے رشتہ حسن کی حقیقت کا
بے دلی کے عالم میں کوئی دلربا نہ تھا

ٹوٹتے اور توڑتے، پھر سے رشتہ جوڑتے
میرے اس کے درمیاں ایسا کچھ بچا نہ تھا

صاف کورا کاغذ تھا خط نہ تھا جو بھیجا تھا
اس نے پڑھ لیا وہ سب، میں نے جو لکھا نہ تھا

روشنی بھی آنکھ کی چھن گئی ہو جب میاں
اس قدر اندھیرے میں خواب دیکھنا نہ تھا

ریل کی دو پٹریاں ایک میں اور ایک وہ
دور پھر بھی ہم رہے یوں تو فاصلہ نہ تھا

عکس تیرا جانے کیوں آئینے میں آ گیا
میں تھا اس کے سامنے کوئی دوسرا نہ تھا

راشد فضلی
__________________________

Urdu Poetry by Rashid Fazli
A Ghazal by Rashid Fazli

Sunday, 20 October 2013

غزل : بزمِ سخن میں اپنا ہنر لے کے آ گیا

غزل

بزمِ سخن میں اپنا ہنر لے کے آ گیا
تھا میرے پاس خونِ جگر لے کے آ گیا

تھی مجھ پہ اُس کی جو بھی نظر لے کے آ گیا
میں اپنے ساتھ رختِ سفر لے کے آ گیا

میں نے کہا جو پھول کبھی باغ میں اُسے
پھر یہ ہوا وہ میری نظر لے کے آ گیا

ٹھہراؤ اب نہیں ہے کسی خوش خیال پر
پاؤں جو میرا شوقِ سفر لے کے آ گیا

تجھ کو بھی چُھو ہی لوں گا میں اوجِ کمال پر
میرا خیال دیکھ جو پر لے کے آ گیا

کوئی ہوا نہ دنیا کی اُس کو سُکھا سکی
دامن تیرے حضور میں تر لے کے آ گیا

چاہا یہ کب تھا اُس کا پتہ غیر سے ملے
تو کون ہے جو اُس کی خبر لے کے آ گیا

دیکھا تھا خواب میں کبھی روشن سی صبحِ نَو
یوں خواب میں تو خیر، سحر لے کے آ گیا

دیکھو کہ اُس کی شام و سحر جُھومنے لگی
راشد خمارِ شب کا اثر لے کے آ گیا

راشد فضلی
_____________________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Monday, 7 October 2013

غزل

وہ کیا کچھ نہ تھا جو بتایا گیا
بہت کم تھا جو کچھ دکھایا گیا

مری رات سینے پہ رکھی گئی
اُسے روشنی سے سجایا گیا

جہاں بٹ رہا تھا عذاب سخن
مجھے کیوں وہاں پر بلایا گیا

سمجھ لو کہ لُٹنے کا وقت آ گیا
اگر ہاتھ تم سے ملایا گیا

خودی پہلے اُس کی خریدی گئی
جسے کام پر پھر لگایا گیا

غرض زندگی میں ملا کچھ نہیں
وہی سبز باغ اِک دکھایا گیا

اُسی سواد سے آشنا ہو گئے
کہ سم تم کو ایسا پلایا گیا

یہ راشد اُبھرتا چلا ہی گیا
جِسے ہر قدم پر دبایا گیا


راشد فضلی
________________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, 12 September 2013

غزل : کل رات خواب دیکھا تھا آنکھوں میں ہے خمار

کل رات خواب دیکھا تھا آنکھوں میں ہے خمار
دیکھا تھا جس کو اس کا ابھی تک ہے انتظار

ہر آئینے پہ چھایا ہے دودِ رواں کا عکس
دیکھوں کہاں میں اپنے خیالوں کا سبزہ زار

لے کے اڑا ہے شاخ سے پتوں کی ٹولیاں
یوں گنگنا رہا ہے ہواؤں کا آبشار

کیوں دے رہا ہے شعروں میں لفظوں سے اک فریب
جو دل میں تیرے ہے اسے بھی تو تو پکار

دیکھا نہیں ہے آنکھوں سے، محسوس تو کیا
کرنا پڑا یوں، اس کے بھی ہونے کا اعتبار

جو ہر سراب زیست کے جسموں کا ڈھک گیا
اس زر نگار خواب کے کپڑے نہ تو اتار

ھم آتشِ فریب سے جل کے ہوئے ہیں راکھ
رکھ دے ہماری خاک میں چاہت کا اک شرار

بہروپ تیرا آئینۂ جاں میں آ بسا
اب روپ کوئی اور میرے سامنے نہ دھار

راشد فضلی
_______________

A Ghazal by Rashid Fazli

Saturday, 27 April 2013

نظم : جنگ ! ایک المیہ

جنگ ! ایک المیہ

(ایران اور عراق جنگ سے متاثر ہوکر)

ابھی جنگ جاری رہے گی
کہ اپنے لہو میں حرارت وہی ہے
یہ مذہب بھی اپنا وہی ہے
زمیں کی قبا ایک ہے جس پہ دو حصے ایسے بنے ہیں
وہاں تم کھڑے ہو
یہاں میں کھڑا ہوں
ابھی جنگ جاری رہے گی........
کہ بچوں کو اپنے،
سکھایا ہے ہم نے
لہو کی وہ قیمت جو ماں باپ پہلے سے طے کر چکے ہیں
چُکانا پڑیگی،
وہ معصوم بچے جو یہ جانتے تک نہیں ہیں
کہ سرحد پہ دشمن ہمارا، ابھی دودھ کی بوتلیں چھوڑ کر آ گیا ہے
وہ کیوں لڑ رہا ہے،
کسی ایک نے یہ کہا کہ ہمیں تو یہاں
میرے اُسی باپ کی ضد نے لا کر کھڑا کر دیا ہے
جو یہ چاہتا ہے کہ اپنی لحد میں پہنچنے سے پہلے
زمیں کی حدوں کا،
وہ بچوں کی خاطر تعین کرے
تاکہ قبروں پہ اپنے ہی بچوں کے ناموں کی تختی لگے
ابھی جنگ جاری رہے گی........
کہ دو سرحدوں سے پرے کچھ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
ایک ہی وقت میں،
ایک ہی جسم کی دونوں آنکھوں کو کھانے کو،
تیار بیٹھے ہوئے ہیں
ابھی جنگ جاری رہے گی........
کہ سرحد کے اس پار بیٹھے ہوئے گدھ
سبھی سو رہے ہیں...... مگر دیکھتے ہیں
انہیں صبح کے ناشتے تک پہنچنے میں اک رات کافاصلہ ہے
ابھی جنگ جاری رہے گی........


راشد فضلی
________________________

Jung : A Poem by Rashid Fazli

Friday, 5 April 2013

نظم : جبر

میں نے اپنی گزاری شبوں پر
اپنی آنکھوں کو پھیلا کے دیکھا
کتنے خوابوں کے پوشیدہ لمس
ان اندھیرے سے لمحوں میں،
جن میں میں اکثر جیا بھی نہیں
گدگداتے رہے،
میں ہنسا جیسے ہنسنا بھی اک کام تھا،
میں وہاں بھی نہیں تھا، جہاں میرے آنسو کی قیمت
محبت کی جھوٹی ترازو میں تولی گئی،
مجھے وقت نے اپنے ہاتھوں میں جکڑا
مگر جس کو جکڑا میرا جسم تھا
میں وہاں بھی کہاں تھا،
سزا بھی میری یہ مقرر ہوئی
کہ دیوار پر اک نوشتہ بنوں
میں نوشتہ بنا،
آئینے میرے چارو طرف، اپنی نظروں سے یلغار کرنے لگے
میں جو سہما ہوا لفظ تھا، بے سہارا ہوا
لوگ کہنے لگے “خواب دیوار پر ٹانکنے کا عمل
صرف ایسی ہی آنکھوں کے ہاتھوں میں ہے
جو کہ نابینا ہوں” 
درد دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر
اپنے الفاظ ناطق بھی گونگے ہوئے
کون کس کو پڑھے، کون کس کو سنے
ایک دیوار ہے جس پہ کچھ لفظ باقی بچے رہ گئے ہیں
جہاں میں نہیں ہوں
وہ میری سزا تو نہ جانے کبھی کی اٹھا لی گئی ہے.

راشد فضلی 

Rashid Fazli Poetry

Thursday, 21 March 2013

نظم : ربوٹ

ہم وہ نہیں ہیں
جسے آدمی لوگ کہتے رہے ہیں
وہی لوگ خود کو بھی جو آدمی کہہ رہے ہیں
زمیں پر یہ چلتے ہوئے جسم
ہمیں لگ رہا ہے کہ سب
کسی ایک برقی سی ڈوری سے جکڑے ہوئے ہیں
بٹن ایک دیوار پر بس ٹنکا ہے
بٹن دب رہا ہے
بٹن اُٹھ رہا ہے
بٹن کے ہی دبنے سے ہم چل رہے ہیں
بٹن اُٹھ گیا تو ہمیں نیند آئ
ہماری یہ ایجاد دیکھو کہ آواز اپنی
بہت دور تک کی مسافت کو طۓ کر رہی ہے
یہاں تک کہ صورت بھی رنگیں ہوکر کسی تار کے راستے سے
ہر اک بحروبر پار کرتی چلی جا رہی ہے
یہاں ہم کھڑے ہیں وہاں تم کھڑے ہو
مگر فاصلہ اب کہاں ہے کہ دونوں
اپنے ہی چہروں کو پہچاننے میں خرچ ہو چکے ہیں
مشینوں کے پرزے الگ ہوکے پہچاں اپنی مٹا بھی چکے ہیں
ہماری شہادت کی انگلی بغل کے انگوٹھے کو کب جانتی ہے
ہماری انھیں صورتوں پر نئی صورتیں پھر جنم لے رہی ہیں
کہ ہم آج تصویر بن کر قوی دھات میں ڈھل رہے ہیں
مگر سوچنے اور سمجھنے کی قوت
جسے ہم مقدر سمجھتے تھے اپنا
مشینوں کے پرزوں کی ایجاد میں صرف کرتے ہوئے ہم
کوئی ایک برقی پلگ بن گئے ہیں
کہ جس کی دو آنکھیں ہمیں گھورتی ہیں
وہ آنکھیں جہاں دور تک اِک اندھیرا خلاء ہے
مگر زندگی کا طلائی سا تمغہ
ہر اک آدمی کے ہی سینے پہ لٹکا ہوا ہے
یہ تمغہ ہمیں اپنی ایجاد پر صَرف ہونے کے عیوض
ہمیں خود ملا ہے.

راشد فضلی

Rashid Fazli Poetry
Robot, the Poem by Rashid Fazli

Monday, 11 March 2013

نظم : مشرقِ وسطی کی نظم

صحرا میں چلتے چلتے
تشنہ لب ہیں سارے،
ہاتھوں میں کشکول لئے
سانسوں کا سکّہ مانگ رہے ہیں
ایک دھماکہ دیکھو پھر،
سناٹوں کو چیر گیا
لاشوں کا انبار لگا
کون جیا اور کون مرا؟
مذہب کس کا کیا تھا، کیا ہے؟
اس جنگل میں جس کو ہم

دنیا کہتے ہیں
صرف درندے رہتے ہیںصدیوں سے راج اُنھیں کا،
ہم انساں تو اپنی اپنی سانسوں کی
بس بھیک مانگ کر زندہ ہیں
لیکن کس لمحے میں آکر
موت چکھےگی جسم کے اندر بہتے لہو کو
کون بتائے، کس کو پتہ ہے
کون جیا ہے کون مرا ہے؟
بس اِک شعلہ پھر سے اُٹھے گا
تہذیبوں کا سارا سینہ شق کر دیگا
کچھ لوگ ہنسیں گے
کچھ رو لیں گے

ہم کتنے مہذب لوگ ہیں یارو!!

راشد فضلی

Rashid Fazli Poetry

Tuesday, 26 February 2013

نظم : بازگشت

کوئریاپار کا منظر


وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ کچے گھروں کی منڈیریں
کہ جس پر،
ہرے، نیلے، اودے، سنہرے پروں کی
نئی خوش گلو، خوش بیاں
اور ساون کے قطروں سے بھیگی ہوئی
وہ چھوٹی سی معصوم چڑیاں
بسیر فگن تھیں،
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ کھڑکی کہاں ہے
جہاں سے کنواری، سلونی سی مٹی کی خوشبو اُڑی تھی
وہ چوکھٹ کہاں ہے
جسے سُرخ سیندور کی غیر مرئی سی آہٹ کی امید تھی
وہ آنگن کہاں ہے
جہاں آم کی ڈالیاں اپنے جھولوں کا پُرکش نظارہ لئے
ہر کنوارے بدن کی کھنکتی ہنسی لیکے خود جھومتی تھیں
وہ خوابیدہ آنکھوں میں پھیلی دھنک کی سواری
وہ پیپل کا پھیلا ہوا ایک خاموش سایہ
وہ سارے نظارے کہاں ہیں
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ سارے کبوتر جو اُن سے اُڑے تھے
ابھی تک فضاؤں میں کیوں دربدر ہیں

راشدؔ فضلی


Rashid Fazli Poetry

Monday, 18 February 2013

غزل : مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے

 
مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اس پیڑ کے سائے میں بھی کیوں اتنی گھٹن ہے
ہیں سبز یہ پتے تو ہوا کیوں نہیں دیتے
جس خون میں آ جائے سفیدی کی ملاوٹ
اس خون کو آنکھوں سے بہا کیوں نہیں دیتے
آئینے ستاتے ہیں تو چہرے کو نہ دیکھو
آنکھوں میں چمک ہے تو بجھا کیوں نہیں دیتے
اس عرصہء خاموش میں ہم تنہا کھڑے ہیں
ہو درد ہمارا تو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ جو پیچھے ہیں وہ پنجوں پہ کھڑے ہیں
قد اپنا یہ تھوڑا سا گھٹا کیوں نہیں دیتے
ہے آگ کا یہ کھیل تو پھر سوچنا کیسا
خود اپنا بدن آپ جلا کیوں نہیں دیتے
وہ بات جو پڑھتے رہے آنکھوں میں ہماری
وہ سارے زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے
                                                         راشدؔ فضلی
____________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli
 

Sunday, 13 January 2013

غزل : دل جلاؤ مگر روشنی تو کرو

دل جلاؤ مگر روشنی تو کرو
جس کو چاہو اسے زندگی تو کرو


بے نیازی تمہاری یہ اچھی نہیں
دوستی نہ سہی، دشمنی تو کرو


میں جلاؤں گا پھر اک چراغ وفا
میرے چاروں طرف تیرگی تو کرو


چاند دریا کی تہہ تک اتر جائے گا
اپنے جذبات کو تم ندی تو کرو


کوئی چہرہ چھپا ہے پس آئینہ
آئینے پھ میرے روشنی تو کرو


در کھلے گا مری چاہتوں کا وہیں
ایک دیوار مجھ پر کھڑی تو کرو


بات سیدھی تو اب دل کو لگتی نہیں
دل دکھاؤ مگر دل لگی تو کرو


خود بخود دنیا دیکھے گی راشد تمہیں
اک نئی طرز کی شاعری تو کرو
_____________________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli