غزل
وہ کیا کچھ نہ تھا جو بتایا گیا
بہت کم تھا جو کچھ دکھایا گیا
وہ کیا کچھ نہ تھا جو بتایا گیا
بہت کم تھا جو کچھ دکھایا گیا
مری رات سینے پہ رکھی گئی
اُسے روشنی سے سجایا گیا
جہاں بٹ رہا تھا عذاب سخن
مجھے کیوں وہاں پر بلایا گیا
سمجھ لو کہ لُٹنے کا وقت آ گیا
اگر ہاتھ تم سے ملایا گیا
خودی پہلے اُس کی خریدی گئی
جسے کام پر پھر لگایا گیا
غرض زندگی میں ملا کچھ نہیں
وہی سبز باغ اِک دکھایا گیا
اُسی سواد سے آشنا ہو گئے
کہ سم تم کو ایسا پلایا گیا
یہ راشد اُبھرتا چلا ہی گیا
جِسے ہر قدم پر دبایا گیا
راشد فضلی
________________________________
![]() |
| A Ghazal by Rashid Fazli |

No comments:
Post a Comment