Sunday, 20 October 2013

غزل : بزمِ سخن میں اپنا ہنر لے کے آ گیا

غزل

بزمِ سخن میں اپنا ہنر لے کے آ گیا
تھا میرے پاس خونِ جگر لے کے آ گیا

تھی مجھ پہ اُس کی جو بھی نظر لے کے آ گیا
میں اپنے ساتھ رختِ سفر لے کے آ گیا

میں نے کہا جو پھول کبھی باغ میں اُسے
پھر یہ ہوا وہ میری نظر لے کے آ گیا

ٹھہراؤ اب نہیں ہے کسی خوش خیال پر
پاؤں جو میرا شوقِ سفر لے کے آ گیا

تجھ کو بھی چُھو ہی لوں گا میں اوجِ کمال پر
میرا خیال دیکھ جو پر لے کے آ گیا

کوئی ہوا نہ دنیا کی اُس کو سُکھا سکی
دامن تیرے حضور میں تر لے کے آ گیا

چاہا یہ کب تھا اُس کا پتہ غیر سے ملے
تو کون ہے جو اُس کی خبر لے کے آ گیا

دیکھا تھا خواب میں کبھی روشن سی صبحِ نَو
یوں خواب میں تو خیر، سحر لے کے آ گیا

دیکھو کہ اُس کی شام و سحر جُھومنے لگی
راشد خمارِ شب کا اثر لے کے آ گیا

راشد فضلی
_____________________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment