غزل
میری اپنی بات تھی، وہ تو بے وفا نہ تھا
میں زبان کھولتا اتنا حوصلہ نہ تھا
میں زبان کھولتا اتنا حوصلہ نہ تھا
لفظ لفظ بوسہ بن کے چومتا تھا اس کا نام
جو غزل کی جان تھا پر وہ آشنا نہ تھا
تھا فریب لفظ کا قلب اور زباں کے بیچ
بات ساری اس میں تھی میں نے جو کہا نہ تھا
ہے مزاج سے رشتہ حسن کی حقیقت کا
بے دلی کے عالم میں کوئی دلربا نہ تھا
ٹوٹتے اور توڑتے، پھر سے رشتہ جوڑتے
میرے اس کے درمیاں ایسا کچھ بچا نہ تھا
صاف کورا کاغذ تھا خط نہ تھا جو بھیجا تھا
اس نے پڑھ لیا وہ سب، میں نے جو لکھا نہ تھا
روشنی بھی آنکھ کی چھن گئی ہو جب میاں
اس قدر اندھیرے میں خواب دیکھنا نہ تھا
ریل کی دو پٹریاں ایک میں اور ایک وہ
دور پھر بھی ہم رہے یوں تو فاصلہ نہ تھا
عکس تیرا جانے کیوں آئینے میں آ گیا
میں تھا اس کے سامنے کوئی دوسرا نہ تھا
راشد فضلی
__________________________
![]() |
| A Ghazal by Rashid Fazli |

No comments:
Post a Comment