ہم وہ نہیں ہیں
جسے آدمی لوگ کہتے رہے ہیں
وہی لوگ خود کو بھی جو آدمی کہہ رہے ہیں
زمیں پر یہ چلتے ہوئے جسم
ہمیں لگ رہا ہے کہ سب
کسی ایک برقی سی ڈوری سے جکڑے ہوئے ہیں
بٹن ایک دیوار پر بس ٹنکا ہے
بٹن دب رہا ہے
بٹن اُٹھ رہا ہے
بٹن کے ہی دبنے سے ہم چل رہے ہیں
بٹن اُٹھ گیا تو ہمیں نیند آئ
ہماری یہ ایجاد دیکھو کہ آواز اپنی
بہت دور تک کی مسافت کو طۓ کر رہی ہے
یہاں تک کہ صورت بھی رنگیں ہوکر کسی تار کے راستے سے
ہر اک بحروبر پار کرتی چلی جا رہی ہے
یہاں ہم کھڑے ہیں وہاں تم کھڑے ہو
مگر فاصلہ اب کہاں ہے کہ دونوں
اپنے ہی چہروں کو پہچاننے میں خرچ ہو چکے ہیں
مشینوں کے پرزے الگ ہوکے پہچاں اپنی مٹا بھی چکے ہیں
ہماری شہادت کی انگلی بغل کے انگوٹھے کو کب جانتی ہے
ہماری انھیں صورتوں پر نئی صورتیں پھر جنم لے رہی ہیں
کہ ہم آج تصویر بن کر قوی دھات میں ڈھل رہے ہیں
مگر سوچنے اور سمجھنے کی قوت
جسے ہم مقدر سمجھتے تھے اپنا
مشینوں کے پرزوں کی ایجاد میں صرف کرتے ہوئے ہم
کوئی ایک برقی پلگ بن گئے ہیں
کہ جس کی دو آنکھیں ہمیں گھورتی ہیں
وہ آنکھیں جہاں دور تک اِک اندھیرا خلاء ہے
مگر زندگی کا طلائی سا تمغہ
ہر اک آدمی کے ہی سینے پہ لٹکا ہوا ہے
یہ تمغہ ہمیں اپنی ایجاد پر صَرف ہونے کے عیوض
ہمیں خود ملا ہے.
جسے آدمی لوگ کہتے رہے ہیں
وہی لوگ خود کو بھی جو آدمی کہہ رہے ہیں
زمیں پر یہ چلتے ہوئے جسم
ہمیں لگ رہا ہے کہ سب
کسی ایک برقی سی ڈوری سے جکڑے ہوئے ہیں
بٹن ایک دیوار پر بس ٹنکا ہے
بٹن دب رہا ہے
بٹن اُٹھ رہا ہے
بٹن کے ہی دبنے سے ہم چل رہے ہیں
بٹن اُٹھ گیا تو ہمیں نیند آئ
ہماری یہ ایجاد دیکھو کہ آواز اپنی
بہت دور تک کی مسافت کو طۓ کر رہی ہے
یہاں تک کہ صورت بھی رنگیں ہوکر کسی تار کے راستے سے
ہر اک بحروبر پار کرتی چلی جا رہی ہے
یہاں ہم کھڑے ہیں وہاں تم کھڑے ہو
مگر فاصلہ اب کہاں ہے کہ دونوں
اپنے ہی چہروں کو پہچاننے میں خرچ ہو چکے ہیں
مشینوں کے پرزے الگ ہوکے پہچاں اپنی مٹا بھی چکے ہیں
ہماری شہادت کی انگلی بغل کے انگوٹھے کو کب جانتی ہے
ہماری انھیں صورتوں پر نئی صورتیں پھر جنم لے رہی ہیں
کہ ہم آج تصویر بن کر قوی دھات میں ڈھل رہے ہیں
مگر سوچنے اور سمجھنے کی قوت
جسے ہم مقدر سمجھتے تھے اپنا
مشینوں کے پرزوں کی ایجاد میں صرف کرتے ہوئے ہم
کوئی ایک برقی پلگ بن گئے ہیں
کہ جس کی دو آنکھیں ہمیں گھورتی ہیں
وہ آنکھیں جہاں دور تک اِک اندھیرا خلاء ہے
مگر زندگی کا طلائی سا تمغہ
ہر اک آدمی کے ہی سینے پہ لٹکا ہوا ہے
یہ تمغہ ہمیں اپنی ایجاد پر صَرف ہونے کے عیوض
ہمیں خود ملا ہے.

No comments:
Post a Comment