Monday, 11 March 2013

نظم : مشرقِ وسطی کی نظم

صحرا میں چلتے چلتے
تشنہ لب ہیں سارے،
ہاتھوں میں کشکول لئے
سانسوں کا سکّہ مانگ رہے ہیں
ایک دھماکہ دیکھو پھر،
سناٹوں کو چیر گیا
لاشوں کا انبار لگا
کون جیا اور کون مرا؟
مذہب کس کا کیا تھا، کیا ہے؟
اس جنگل میں جس کو ہم

دنیا کہتے ہیں
صرف درندے رہتے ہیںصدیوں سے راج اُنھیں کا،
ہم انساں تو اپنی اپنی سانسوں کی
بس بھیک مانگ کر زندہ ہیں
لیکن کس لمحے میں آکر
موت چکھےگی جسم کے اندر بہتے لہو کو
کون بتائے، کس کو پتہ ہے
کون جیا ہے کون مرا ہے؟
بس اِک شعلہ پھر سے اُٹھے گا
تہذیبوں کا سارا سینہ شق کر دیگا
کچھ لوگ ہنسیں گے
کچھ رو لیں گے

ہم کتنے مہذب لوگ ہیں یارو!!

راشد فضلی

Rashid Fazli Poetry

No comments:

Post a Comment