Monday, 31 December 2012

نیا سال

سالہا سال سے ہم نئے سال میں
آتے جاتے رہے،
دُکھ اٹل ہے اور ہنسنا بھی اک رسم ہے
آج پھر ہم ہنسے اپنے زخموں پھ
جن کو کہ جھیلے ہوئے
سال کے سال بیتے
آج پھر ہم ہنسے،
اپنے آئندہ زخموں کی آمد یقینی ہوئی
بہتری کی تمنا کی کلیاں کِھلیں
دل سمجھنے لگا دُکھ کے یہ دن تو شاید گئے
پھر بھی ہمارا یہ "شاید"
ہر نئے سال کی ایک تنہا علامت رہا
بے یقینی کی ساری جہت آج روشن ہوئی
کل بھی روشن تھی لیکن کِسے یاد تھی
_____________

Poetry by Rashid Fazli
Naya Saal : Poetry by Rashid Fazli

Monday, 24 December 2012

غزل : پاؤں کی خاک تھے تو ترے در کے ہو گئے

پاؤں کی خاک تھے تو ترے در کے ہو گئے
اندر ہوا لے آئ ہمیں گھر کے ہو گئے

احساسِ جانکنی سے ادا کر دیے تمام
سارے حساب عرصہء محشر کے ہو گئے

پرچھائیوں میں جینے لگے تھے ہم اس قدر
سائے ہمارے آج برابر کے ہو گئے

ثابت کرے یہ کون کہ اُن میں بھی جان تھی
وہ سارے جسم آج جو پتھر کے ہو گئے

تِنکو کی زندگی میں بھی آتا ہے انقلاب
نالے میں بہتے بہتے سمندر کے ہو گئے

ہیں کھیل اِس تماشا گہہ زیست کے عجب
رُتبے بڑے سبھی یہاں جوکر کے ہو گئے

وحشت نے دل کی اِس قدر بے گھر کیا ہمیں
گھر سے نکال کے آج ہم باہر کے ہو گئے

پتے تو جڑ کے پھول سے زینت تھے پیڑ کی
شاخِ ہُنر سے کٹ گئے صرصر کے ہو گئے
________________ 

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli


Saturday, 15 December 2012

غزل : دائرہ در دائرہ آبِ رواں تحریر ہے

دائرہ در دائرہ آبِ رواں تحریر ہے
نفسِ مضموں آج سارا حلقہء زنجیر ہے

کس قدر بگڑی ہوئی صورت میں پوشیدہ ہے وہ
آئینہ در آئینہ اب سوچ میں تصویر ہے

وحشت بھری اُس شکل پر نقشِ قیامت درج ہے
روشنی کی اِک کرن پھر بھی وہاں تحریر ہے

سب دباتے ہیں مگر آواز کچھ دبتی نہیں
پھر کسی گُنبد کی دنیا میں نئی تعمیر ہے

ہے بنائے آرزو تو زخم کی اینٹیں رکھو
زندگی میں اس سے بڑھ کر کیا بڑی توقیر ہے

وہ بشر تھا جس نے ہم کو کرکے یہ دکھلا دیا
یہ جہاں کیا وہ جہاں بھی قابل تسخیر ہے

پچھلے موسم میں جو بچھڑی اُس ہوا کو دیکھنا
تیری چاہت میں ابھی تک کس قدر دلگیر ہے

جیسا سوچوگے وہی آئیگا تم کو بس نظر
سارے خوابوں کی سمجھ لو ایک ہی تعبیر ہے

عہد حاضر کا بھی شاعر درد سے معمور ہے
لوگ کہتے ہیں غزل میں میر ہے بس میر ہے
_________________

Khaab Kinare : Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli

Friday, 7 December 2012

غزل : کس قدر ہمت ہے مجھ میں ہے تجھے بھی کچھ خبر

کس قدر ہمت ہے مجھ میں ہے تجھے بھی کچھ خبر
پھیلتا جاتا ہے رستہ دیکھ کر میرا سفر

اس قدر مایوس کیوں ہے دل بھی بچہ ہے ترا
لگ ہی جاۓ گا بھلاوے سے نکال کر راہ پر

اس جہان رنگ و بو میں کتنے ہیں وہم و گماں
سارے خدشے چھوڑ دے تو اور اپنا کام کر

ہے سمندر سامنے اور ساحلوں پر ہے سراب
دشت امکاں ڈھونڈھ کوئی، ہے کہاں دیوار و در

ہر قدم پر منزلوں کو چھوڑنا ہے زندگی
جادۂ امکاں پھ کیا اب راستے پھ رکھ نظر
________________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli

Friday, 23 November 2012

غزل : دل میں آیا تو، تناننا ہایاہو (نئی ایجاد)

غزل (نئی ایجاد)
(اس غزل میں آدھا مہمل مصرعہ کا استعمال ہوا ہے جو براۓ بیت ہے. باقی پوری غزل ڈیڑھ مصرعے کی ہے.)

دل میں آیا تو، تناننا ہایاہو
بکھری اک خوشبو تناننا ہایاہو
رقص کے موسم میں جھومیں دل کے ساتھ
آنکھیں اور ابرو، تناننا ہایاہو
باہوں کی ڈالی، سونی اور خالی
آج اس میں تو تناننا ہایاہو
ہجر کے موسم میں پیار کی نظروں سے
آکے چھولے تو تناننا ہایاہو
یاد نہیں کچھ بھی ڈوب گیا دل بھی
حسن ترا جادو تناننا ہایاہو
پچھلے موسم کی یادیں کچھ اور تو
کوئل کی کو کو، تناننا ہایاہو
وقت کی قید کہاں ذہنی افق پر تو
دل بھی بے قابو تناننا ہایاہو
اندھیارا ہے دل، اندھیاری ہے رات
ہاتھوں پر جگنو تناننا ہایاہو
چاند سے چہرے پر پھیل گئی آکر
عاشق ہے گیسو تناننا ہایاہو
عشق کے جنگل میں بیٹھے ہیں صیاد
زیر دام آہو تناننا ہایاہو
________________________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli

Sunday, 11 November 2012

غزل : ہوا کے رخ پھ رکھا اک دیا ہوں

ہوا کے رخ پھ رکھا اک دیا ہوں
کسی کو راستہ دکھلا رہا ہوں

اگر چہرہ کتابی ہے تو سمجھو
اسی پر میں کہیں لکھا ہوا ہوں

زمیں پیروں تلے کوئی نہیں ہے
جہاں پر آج میں آکر کھڑا ہوں

ضرورت ہے مجھے بھی آسماں کی
میں اپنے لب سے بچھڑی اک دعا ہوں

مرے اعصاب پر چھائی ہے دنیا
کہ رگ رگ میں اسی کو ڈھونڈھتا ہوں

کسی سے رشتہ امید رکھ کر
میں اپنی زندگی سے کھیلتا ہوں

مرا ہر نقش اب دیوار پر ہے
میں اپنے گھر کا کتبہ بن گیا ہوں

نگاہیں سبز ہوتی جا رہی ہیں
لہو میں میں سفیدی دیکھتا ہوں

مجھے بھی ٹوٹنا آخر ہے راشد
کسی کا میں بھی اک عہد وفا ہوں
_________________ 

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli

Saturday, 3 November 2012

غزل : اک تیرا تصور جو گریزاں بھی نہیں ہے

اک تیرا تصور جو گریزاں بھی نہیں ہے
کیا گھر کو سجاؤں کوئی مہماں بھی نہیں ہے

تصویر کی صورت میرا ہر جذبہ ٹنگا ہے
اب چاہت و نفرت میں وہ ارماں بھی نہیں ہے

آنکھیں ہوں کھلی صاف نظر آتا ہے سب کچھ
غم ہنستے ہوئے شخص کا پنہاں بھی نہیں ہے

احساس کا بادل بھی فقط آج دھواں ہے
نم کر دے کسی دشت کو باراں بھی نہیں ہے

ہر سانس کو گنتے ہوئے اس دور میں جینا
دشوار نہیں ہے مگر آساں بھی نہیں ہے

کیا ٹھہرے یہاں یار، کہ دنیا میں کشش ہے
اس دل کی طرح دنیا بیاباں بھی نہیں ہے

لب بستہ و خاموش ہے ہستی کا سمندر
اب دل میں کسی درد کا طوفاں بھی نہیں ہے

خود اپنے ہی کردار کا قاتل ہے مسلماں
مائل بہ کرم اس لئے یزداں بھی نہیں ہے

ہر درد سے محروم ہے جذبات سے عاری
اب آدمی اس دور کا انساں بھی نہیں ہے

دھوکا تھا مگر دل تو بہل جاتا تھا راشد
جانے کے لئے کوچہٴ جاناں بھی نہیں ہے
___________________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli

غزل : وہ ایک چہرہ جو کھو چکا ہوں

وہ ایک چہرہ جو کھو چکا ہوں
اسی کو اک عمر رو چکا ہوں

مجھے اٹھانا ہے سر یہیں سے
میں خود کو صحرا میں بو چکا ہوں

حیات پہنے ہوئے ہے مجھکو
لباس اپنا میں کھو چکا ہوں   

نہ چہرہ دیکھو نہ دل میں جھانکو
غبار سارے میں ڈھو چکا ہوں

زبان لفظوں کی کٹ گئی ہے
میں اپنی آواز کھو چکا ہوں

سیاہ بختی میں جانتا ہوں
قلم لہو میں ڈبو چکا ہوں

کسی کی آنکھوں میں جاگتا ہوں
کسی کی پلکوں پھ سو چکا ہوں

میں اس کی رحمت کا منتظر ہوں
میں اپنا دامن بھگو چکا ہوں   

خلوص رشتوں میں ڈھونڈتا ہوں
ملول ہونا تھا ہو چکا ہوں

_________________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli