Saturday, 3 November 2012

غزل : اک تیرا تصور جو گریزاں بھی نہیں ہے

اک تیرا تصور جو گریزاں بھی نہیں ہے
کیا گھر کو سجاؤں کوئی مہماں بھی نہیں ہے

تصویر کی صورت میرا ہر جذبہ ٹنگا ہے
اب چاہت و نفرت میں وہ ارماں بھی نہیں ہے

آنکھیں ہوں کھلی صاف نظر آتا ہے سب کچھ
غم ہنستے ہوئے شخص کا پنہاں بھی نہیں ہے

احساس کا بادل بھی فقط آج دھواں ہے
نم کر دے کسی دشت کو باراں بھی نہیں ہے

ہر سانس کو گنتے ہوئے اس دور میں جینا
دشوار نہیں ہے مگر آساں بھی نہیں ہے

کیا ٹھہرے یہاں یار، کہ دنیا میں کشش ہے
اس دل کی طرح دنیا بیاباں بھی نہیں ہے

لب بستہ و خاموش ہے ہستی کا سمندر
اب دل میں کسی درد کا طوفاں بھی نہیں ہے

خود اپنے ہی کردار کا قاتل ہے مسلماں
مائل بہ کرم اس لئے یزداں بھی نہیں ہے

ہر درد سے محروم ہے جذبات سے عاری
اب آدمی اس دور کا انساں بھی نہیں ہے

دھوکا تھا مگر دل تو بہل جاتا تھا راشد
جانے کے لئے کوچہٴ جاناں بھی نہیں ہے
___________________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli

No comments:

Post a Comment