Monday, 24 December 2012

غزل : پاؤں کی خاک تھے تو ترے در کے ہو گئے

پاؤں کی خاک تھے تو ترے در کے ہو گئے
اندر ہوا لے آئ ہمیں گھر کے ہو گئے

احساسِ جانکنی سے ادا کر دیے تمام
سارے حساب عرصہء محشر کے ہو گئے

پرچھائیوں میں جینے لگے تھے ہم اس قدر
سائے ہمارے آج برابر کے ہو گئے

ثابت کرے یہ کون کہ اُن میں بھی جان تھی
وہ سارے جسم آج جو پتھر کے ہو گئے

تِنکو کی زندگی میں بھی آتا ہے انقلاب
نالے میں بہتے بہتے سمندر کے ہو گئے

ہیں کھیل اِس تماشا گہہ زیست کے عجب
رُتبے بڑے سبھی یہاں جوکر کے ہو گئے

وحشت نے دل کی اِس قدر بے گھر کیا ہمیں
گھر سے نکال کے آج ہم باہر کے ہو گئے

پتے تو جڑ کے پھول سے زینت تھے پیڑ کی
شاخِ ہُنر سے کٹ گئے صرصر کے ہو گئے
________________ 

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli


No comments:

Post a Comment