Sunday, 21 December 2014

غزل : زندگی کی سنہری سی اِک شام تھی راستے میں ملی اور جُدا ہو گئی

غزل
 
زندگی کی سنہری سی اِک شام تھی راستے میں ملی اور جُدا ہو گئی
اب سیہ رات کی اِک کہانی بچی جو ہمارے لئے بد دعا ہو گئی

اپنی آنکھوں کو دیوار پر ٹانک کر چہرے سارے ہی چپکے سے رخصت ہوئے
آئینے اپنے چارو طرف دیکھ کر روشنی جنگلوں کی صدا ہو گئی

ہم چلے جب سفر پر تو رستے کئی سوندھی مٹی کی خوشبو اُڑانے لگے
گاؤں آنکھوں میں یوں آکے اپنا بسا دھوپ ساون کی ٹھنڈی ہوا ہو گئی

ہم شفق سے بھرا سرخ رُو آسماں زرد سرسوں کے پھولوں کو کیا دے گئے
زرد چہروں کا ہر خواب رنگیں ہوا ہر طرف اِک سنہری فضا ہو گئی

لذّتِ خود کلامی کا عادی تھا میں، آہٹوں نے مگر مجھ کو دھوکا دیا
دَر کھُلا میری آواز رخصت ہوئی گھر کی دیوار مجھ سے خفا ہو گئی

اپنے آنگن کے ننھے سے پودے جو تھے دیکھتے دیکھتے سب جواں ہو گئے
یوں گئی رُت کے سینے سے اُبھری ہوئی ہر نئی سی کلی دِلرُبا ہو گئی

راشد فضلی

Rashid Fazli Poetry
Urdu Ghazal by Rashid Fazli

ग़ज़ल

ज़िन्दगी की सुनहरी सी इक शाम थी रास्ते में मिली और जुदा हो गई
अब सियह रात की इक कहानी बची जो हमारे लिये बद-दुआ हो गई

अपनी आँखों को दीवार पर टाँक कर चेहरे सारे ही चुपके से रुख़सत हुए
आईने अपने चारो तरफ देख कर रौशनी जंगलों की सदा हो गई

हम चले जब सफ़र पर तो रस्ते कई सोंधी मिट्टी की खुशबू उड़ाने लगे
गाँव आँखों में यूँ आ के अपना बसा धूप सावन की ठंडी हवा हो गई

लज़्ज़ते ख़ुद कलामी का आदी था मैं, आहटों ने मगर मुझको धोका दिया
दर खुला मेरी आवाज़ रुख़सत हुई घर की दीवार मुझसे खफ़ा हो गई

राशिद फ़ज़ली

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Saturday, 25 October 2014

غزل : اک بے وفا پہ آج میں مرتا چلا گیا

غزل

اک بے وفا پہ آج میں مرتا چلا گیا
اُس کو بھی اپنی آنکھ میں بھرتا چلا گیا

تو مجھ کو مہ و سال سے ہی تولتا رہا
میں عمر کی طرح سے گزرتا چلا گیا

تھی سطحِ آب پر ہی مری موجِ زندگی
مثلِ حباب میں کہ بکھرتا چلا گیا

اَے نامراد عشق تجھے کچھ خبر نہیں
میں اس کے ہجر میں بھی سنوارتا چلا گیا

اِن آئینوں میں کون سی صورت میں دیکھتا
آیا جو سامنے وہ گزرتا چلا گیا

دیکھا تھا اُس کے حسن کو حدِّ نگاہ تک
اوجھل ہوا تو اور نکھرتا چلا گیا

اِس دور کی تو ساری ہی قدریں بدل گئیں
مرتا رہا وہ شخص جو کرتا چلا گیا

یہ زندگی بھی کھیل ہے دریا کی موج کا
ڈوبا جو عشق میں وہ اُبھرتا چلا گیا

ہاں سامنے کسی کے جھکایا جو سر کبھی
راشد پہ بوجھ اور وہ دھرتا چلا گیا

راشد فضلی

______________________

Rashid Fazli Poetry
Urdu Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, 7 October 2014

غزل : ہے آج وہ بھی میرے برابر کھڑا ہوا

غزل

ہے آج وہ بھی میرے برابر کھڑا ہوا
رستے میں چھوڑ آئے تھے جس کو پڑا ہوا

چہرے پہ میرے تیری ہی چاہت کا رنگ ہے
لیکن فراق میں تیرے کتنا اُڑا ہوا

دونوں میں فاصلہ بھی ہے لیکن قریب کا
دیوار سے ہے سائے کا رشتہ جڑا ہوا

اس زندگی سے بھاگ کر جاؤں کدھر کو میں
اِک شخص پوچھتا تھا سڑک پر کھڑا ہوا

کیا کم ہے زندگی میں یہ لذت بہشت کی
میں لذتِ گناہ میں پل کر بڑا ہوا

کرنا تھا مجھ کو اُس سے بھی نیکی کا سب حساب
پھینکا تھا جس نے مجھ پہ ٹماٹر سڑا ہوا

رِشتوں میں فرق آ گیا رہنے دو چین سے
مردہ اُکھڑتے ہو کیوں آخر گڑا ہوا

راشد فضلی
_________________

Urdu Poetry by Rashid Fazli
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, 28 August 2014

غزل : ایک تصویر ہے میری تحریر میں

غزل

ایک تصویر ہے میری تحریر میں
زندگی لگ گئی جس کی تفسیر میں

اَب تو کٹتا ہے بازو نہ میرا بدن
آب باقی نہیں اُس کی شمشیر میں

چھیدتا ہے بدن میرے احساس کا
کوئی جادو نہیں پر ترے تیر میں

ہاتھ آیا نہیں جذبۂ عشق و فن
ساری دنیا گئی اس کی تسخیر میں

کوئی زندہ رہا جاگتی آنکھ میں
کوئی مَر بھی گیا اُس کی تعبیر میں

آج رنگوں میں جذبہ بکھر جائے گا
جان ڈالو نہ تم اُس کی تصویر میں

چاہتے کیوں ہو فن میں وہی اِک جھلک
جو کہ غالب میں تھی اور تھی میر میں

ساری دنیا کا راشد جنم ہو گیا
بات اتنی سی ہے اَپنی تقصیر میں

راشد فضلی
__________________________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Wednesday, 6 August 2014

غزل : کرتا ہے کس انداز سے اِقرار تو دیکھو

غزل

کرتا ہے کس انداز سے اِقرار تو دیکھو
اُس شوخ کا یہ شیوۂ اِنکار تو دیکھو

باہر تو ہر اِک ہاتھ میں تھا سنگِ ملامت
لو گرنے لگی گھر کی بھی دیوار تو دیکھو

تصویر سے ملتی ہے مصوّر کی کہانی
خاموش لبوں کا ذرا اظہار تو دیکھو

پھیلا ہوا تا حدِّ نظر دھوپ کا صحرا
ہوتی ہے غزل اس میں بھی افکار تو دیکھو

لفظوں کا مصوّر ہوں مگر کس کو بتاؤں
ہے سر پہ مرے کتنا بڑا بار تو دیکھو

مانا کہ تعلق جو تھا سب توڑ چکے ہو
جاتے ہوئے مڑ کر مجھے اِک بار تو دیکھو

یادوں کے اندھیرے سے کہیں جھانک رہا ہے
کیا خُوب ہے وہ اپنا بھی دلدار تو دیکھو

مانا کہ نہیں غالب و اقبال کا ہمسر
راشد کے ذرا پھر بھی یہ اشعار تو دیکھو

راشد فضلی
___________________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, 10 July 2014

غزل : نگاہِ شوق سے ہر دل کا کاروبار چلے

فیض کے نام

نگاہِ شوق سے ہر دل کا کاروبار چلے
مزہ تو جب ہے کہ نقشِ قدم پہ یار چلے

ہے جس کو اپنی محبت کی سرحدیں معلوم
نہ کوئے یار میں آئے نہ سوئے دار چلے

دیارِ دوست سے اٹھے تو پھر کدھر جائے
یہ ضد ہے اُن کی یہاں سے ہر اک غبار چلے

وہی تھے زیست کے حاصل وہی حقیقت تھے
جو لمحے تیرے خیالوں میں ہم گزار چلے

بچھڑ کے تجھ سے یہ عالم ہے بدحواسی کا
زمانے بھر کو تیرے نام سے پکار چلے

تیرے خیال سے نکلے تو خود سے دور ہوئے
یہ زندگی بھی تجھی پر مگر نثار چلے 

راشد فضلی
______________________

Rashid Fazli Poetry
A Tribute to Faiz Ahmad Faiz by Rashid Fazli

Tuesday, 24 June 2014

غزل : اپنی نظریں جھکائے رکھتی ہے

غزل

اپنی نظریں جھکائے رکھتی ہے
درد سارا چھپائے رکھتی ہے

تیری یادوں کے نرم بستر پر
رات آنکھیں جگائے رکھتی ہے

ایک خوشبو کی ہلکی آہٹ بھی
گھر میں آفت مچائے رکھتی ہے

راکھ ہوکر بھی عشق کی لذّت
شعلہ خود میں دبائے رکھتی ہے

زندگی کی ادھوری خواہش بھی
ربط تجھ سے بنائے رکھتی ہے

بے سبب آس کی کرن دل میں
آرزوئیں جلائے رکھتی ہے

کتنی سادہ مزاج لڑکی ہے
رنگ سارے چھپائے رکھتی ہے

راشد فضلی
_____________________________

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, 3 June 2014

نظم : کہاں تم رہوگے

نظم : کہاں تم رہوگے

سڑک پر چلو تو تمہیں صرف
پاگل ہی کُتے ملیں گے،
شہر میں دکانوں پہ اشیاء بہت ہیں
خریدار جتنے بھی تم کو ملیں گے
وہ خود بِک چکے ہیں
جو گھر کی طرف اپنے لوٹو، تو پھر
وہ پلگ جیسی نابینا آنکھیں
تمھارے ہی کمرے کی دیوار سے
تمہیں گھور کر دیکھنے سے کبھی نہ تھکیں گی
بتاؤ کہ اب تم کہاں پر رہوگے
یہاں اپنے گھر میں یا باہر؟
ذرا آسماں اپنی کھڑکی سے دیکھو
زمیں کی حدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں
سمندر کے پانی پہ چلنے کی کوشش کرو
سڑک پر چلو گے تو تم کو
وہ کتے ملیں گے
جو بے حس زمینوں کی میراث ہیں!

راشد فضلی
______________________________

Rashid Fazli Poetry
Urdu Nazm by Rashid Fazli
 
Find Rashid Fazli on Facebook :- Rashid Fazli Poetry on Facebook

Sunday, 18 May 2014

نظم : جدھر میں ہو کے آیا ہوں

ابھی کس نے کہا مجھ سے کہ تُو بھی اُس طرف کی ہے جدھر سے یہ ہوا آئ
میں اپنے جذبۂ شوقِ محبت کو حسیں رنگوں میں بکھرا دوں
پکڑ اپنی اُنھیں رنگوں کے ہاتھوں میں کہیں رکھ دوں
مگر تُو تو وہ خوشبو ہے جو رنگوں کی حسیں چھلنی سے چَھنتی ہے
میں اپنی ہر نظر کی تابناکی کو مہ و انجم کی کرنیں دے کے بھیجوں بھی
تو تیری اُس جبیں ناز کا بوسہ ملے شاید، نہیں شاید
ہواؤں کے سروں پر میں وہ جذبہ رکھ کے بھیجوں گا
جو تجھ کو میری چاہت کی طرف لے کر کبھی آئے
مگر یہ ڈر بھی مجھ کو ہے کہیں جذبہ میرا مجھ سے مُکر جائے تو کیا ہوگا
میں تجھ کو کھو چکا ہوں گا
تُو خوشبو ہے تو پھولوں میں کہیں جاکر بسیرا کر
ہوا گردِش میں جب ہوگی تو میں خود تجھ کو چوموں گا
ہوا بن کر سمیٹوں گا
کہ تو بھی اُس طرف کی ہے جِدھر میں ہو کے آیا ہوں
حسیں پریوں کی وہ بستی!
جو خوابوں پر ہی سجتی تھی!!

راشد فضلی

_______________________________

Rashid Fazli Poetry
Urdu Nazm by Rashid Fazli

 
Find Rashid Fazli on Facebook :- Rashid Fazli Poetry on Facebook

Saturday, 26 April 2014

غزل : جو تھے جیسے تھے تم، اچھے لگتے تھے

غزل

جو تھے جیسے تھے تم، اچھے لگتے تھے
دور تھے لیکن کتنے اپنے لگتے تھے

اب کے شہر میں صورت کو بھی ترسے ہم
پہلے سارے چہرے چہرے لگتے تھے

چاندی سونے جیسے وہ دن کہاں گئے
تانبے کے جب سکے پیسے لگتے تھے

پہلے گھروں میں بٹوارہ کب ہوتا تھا
جو آتے تھے ساتھ میں رہنے لگتے تھے

بیچ کی اک دیوار نے ہم کو الگ کیا
یوں تو ہم دونوں ہم سائے لگتے تھے

اب تو ہر چہرے پر دوسرا چہرہ ہے
پہلے لوگ تھے جیسے ویسے لگتے تھے

پچھلی نسلوں کا یہ شیوہ بھی اچھا تھا
اچھوں کو سب اچھا کہنے لگتے تھے

راشد فضلی
_________________________

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli
Find Rashid Fazli on Facebook - 

Saturday, 8 March 2014

غزل : زرد پتوں پہ آنکھوں کی تصویر ہے

غزل

زرد پتوں پہ آنکھوں کی تصویر ہے
زندگی نیلے پانی کی تحریر ہے

خواب دیکھو مگر خواب چاہو نہیں
اب یہی اپنے خوابوں کی تعبیر ہے

کٹ رہا ہے بدن میرے احساس کا
اِن ہواؤں کے ہاتھوں میں شمشیر ہے

آئنےہ کی ضرورت نہیں آنکھ کو
ہر کُھلا چہرا خود اپنی تفسیر ہے

اپنے ہاتھوں کی بے حس لکیریں گِنو
اور سوچو تمہاری یہ تقدیر ہے

اپنی سانسوں کے تم خود محافظ بنو
زندہ رہنے کی بس ایک تدبیر ہے

بے گناہی کہاں اپنی ثابت کروں
منصفی ہے کہیں اب نہ زنجیر ہے

راشد فضلی
_____________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Find Rashid Fazli on Facebook -

Saturday, 22 February 2014

غزل : جسے میں اُٹھا ہوں اُجالنے

غزل

جسے میں اُٹھا ہوں اُجالنے
اُسے ردْ کیا ہے خیال نے

مجھے خود اُسی نے گرا دیا
میں گیا تھا جس کو سنبھالنے

مری زندگی کو پکا دیا
مرے اندرونی اُبال نے

مری ہر خوشی کو دبا دیا
کسی دل گرفتہ خیال نے

وہ بکھر گیا، مری ذات کو
جو چلا تھا شیشے میں ڈھالنے

مجھے پر لگا کے اُڑا دیا
مرے اپنے ذوقِ کمال نے

جو چھپا تھا دامِ فریب میں
وہ دکھا دیا مرے حال نے

وہی کانٹا مجھ میں چبھا رہا
میں لگا تھا جس کو نکال نے

راشد فضلی
____________________________

Please Click on the Image to Enlarge -
.
Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Find Rashid Fazli on Facebook -

Saturday, 25 January 2014

غزل : تیرے اندر ہے چھپا، پاگل ہوا کہہ کر گئی

غزل

تیرے اندر ہے چھپا، پاگل ہوا کہہ کر گئی
تُو نہیں اِک دوسرا، پاگل ہوا کہہ کر گئی

ہجر کا سودا کرو اور درد میں لذّت نہ ہو
یہ بھی ہے اِک سانحہ پاگل ہوا کہہ کر گئی

سارا شہر ِجاں جلا کر، بجھ چکا ہو جو دیا
پھر نہ اس کو تُو جلا پاگل ہوا کہہ کر گئی

ریت کی دیوار پر چھت ڈال کر بیٹھا اگر
خودکُشی دیگی صدا پاگل ہوا کہہ کر گئی

ہاں بصارت پر مری دیوار بھی حائل نہیں
مجھ سے خود کو نا چھپا پاگل ہوا کہہ کر گئی

کتنے کپڑے موسموں کے یوں بدل ڈالے مگر
رہ گیا سب دھول سا، پاگل ہوا کہہ کر گئی

خود ساختہ مینار پر چڑھ کر کہا، میں ہوں یہاں
جب آدمی پاگل ہوا پاگل ہوا کہہ کر گئی

کون سمجھے گا غزل کا رنگ لفظوں سے ترے
اپنے جذبوں کو سُلا پاگل ہوا کہہ کر گئی

راشد فضلی
_______________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli