غزل
اک بے وفا پہ آج میں مرتا چلا گیا
اُس کو بھی اپنی آنکھ میں بھرتا چلا گیا
تو مجھ کو مہ و سال سے ہی تولتا رہا
میں عمر کی طرح سے گزرتا چلا گیا
تھی سطحِ آب پر ہی مری موجِ زندگی
مثلِ حباب میں کہ بکھرتا چلا گیا
اَے نامراد عشق تجھے کچھ خبر نہیں
میں اس کے ہجر میں بھی سنوارتا چلا گیا
اِن آئینوں میں کون سی صورت میں دیکھتا
آیا جو سامنے وہ گزرتا چلا گیا
دیکھا تھا اُس کے حسن کو حدِّ نگاہ تک
اوجھل ہوا تو اور نکھرتا چلا گیا
اِس دور کی تو ساری ہی قدریں بدل گئیں
مرتا رہا وہ شخص جو کرتا چلا گیا
یہ زندگی بھی کھیل ہے دریا کی موج کا
ڈوبا جو عشق میں وہ اُبھرتا چلا گیا
ہاں سامنے کسی کے جھکایا جو سر کبھی
راشد پہ بوجھ اور وہ دھرتا چلا گیا
راشد فضلی
______________________
اک بے وفا پہ آج میں مرتا چلا گیا
اُس کو بھی اپنی آنکھ میں بھرتا چلا گیا
تو مجھ کو مہ و سال سے ہی تولتا رہا
میں عمر کی طرح سے گزرتا چلا گیا
تھی سطحِ آب پر ہی مری موجِ زندگی
مثلِ حباب میں کہ بکھرتا چلا گیا
اَے نامراد عشق تجھے کچھ خبر نہیں
میں اس کے ہجر میں بھی سنوارتا چلا گیا
اِن آئینوں میں کون سی صورت میں دیکھتا
آیا جو سامنے وہ گزرتا چلا گیا
دیکھا تھا اُس کے حسن کو حدِّ نگاہ تک
اوجھل ہوا تو اور نکھرتا چلا گیا
اِس دور کی تو ساری ہی قدریں بدل گئیں
مرتا رہا وہ شخص جو کرتا چلا گیا
یہ زندگی بھی کھیل ہے دریا کی موج کا
ڈوبا جو عشق میں وہ اُبھرتا چلا گیا
ہاں سامنے کسی کے جھکایا جو سر کبھی
راشد پہ بوجھ اور وہ دھرتا چلا گیا
راشد فضلی
______________________
![]() |
| Urdu Ghazal by Rashid Fazli |

No comments:
Post a Comment