غزل
ہے آج وہ بھی میرے برابر کھڑا ہوا
رستے میں چھوڑ آئے تھے جس کو پڑا ہوا
چہرے پہ میرے تیری ہی چاہت کا رنگ ہے
لیکن فراق میں تیرے کتنا اُڑا ہوا
دونوں میں فاصلہ بھی ہے لیکن قریب کا
دیوار سے ہے سائے کا رشتہ جڑا ہوا
اس زندگی سے بھاگ کر جاؤں کدھر کو میں
اِک شخص پوچھتا تھا سڑک پر کھڑا ہوا
کیا کم ہے زندگی میں یہ لذت بہشت کی
میں لذتِ گناہ میں پل کر بڑا ہوا
کرنا تھا مجھ کو اُس سے بھی نیکی کا سب حساب
پھینکا تھا جس نے مجھ پہ ٹماٹر سڑا ہوا
رِشتوں میں فرق آ گیا رہنے دو چین سے
مردہ اُکھڑتے ہو کیوں آخر گڑا ہوا
راشد فضلی
_________________
ہے آج وہ بھی میرے برابر کھڑا ہوا
رستے میں چھوڑ آئے تھے جس کو پڑا ہوا
چہرے پہ میرے تیری ہی چاہت کا رنگ ہے
لیکن فراق میں تیرے کتنا اُڑا ہوا
دونوں میں فاصلہ بھی ہے لیکن قریب کا
دیوار سے ہے سائے کا رشتہ جڑا ہوا
اس زندگی سے بھاگ کر جاؤں کدھر کو میں
اِک شخص پوچھتا تھا سڑک پر کھڑا ہوا
کیا کم ہے زندگی میں یہ لذت بہشت کی
میں لذتِ گناہ میں پل کر بڑا ہوا
کرنا تھا مجھ کو اُس سے بھی نیکی کا سب حساب
پھینکا تھا جس نے مجھ پہ ٹماٹر سڑا ہوا
رِشتوں میں فرق آ گیا رہنے دو چین سے
مردہ اُکھڑتے ہو کیوں آخر گڑا ہوا
راشد فضلی
_________________

No comments:
Post a Comment