Tuesday, 28 August 2018

Ghazal : Khoon Ehsaas Ka Hi Peete Hain

A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

خون احساس کا ہی پیتے ہیں
لوگ مرتے نہیں تو جیتے ہیں

ہم اُداسی کے مُلک میں رہ کر
درد سہتے ہیں خون پیتے ہیں

ہو  چکا  ہے  ز یاں  تکلّم   کا
ہم  زباں  اپنی  آج  سیتے  ہیں

آئينہ  جا کے اُن کو دِکھلا  دے
وہ جو تیرے بہت چہیتے ہیں

کس قدر بے حسی کا عالم ہے
لوگ پرچھائيں اپنی جیتے ہیں

چند لمحے بِتائيں ہیں خود سے
اور کچھ ہم پہ آکے بیتے ہیں

اب تو یہ بھی خبر نہیں راشد
بازی ہارے ہیں یا کہ جیتے ہیں

راشد فضلی

Tuesday, 10 July 2018

Ghazal : Pyaar Ek Dauda Nahi Hai Haan Nahi

غزل

پیار اِک سودا نہیں ہے ہاں نہیں
میں نے یوں چاہا نہیں ’ہے‘ہاں نہیں

خودفریبی سے نکلنا ہے محال
تُو مِرا  دھوکا نہیں ہے ہاں نہیں

میں چلا بھی اُس طرف کہ جس طرف
راستہ جاتا نہیں ہے ہاں نہیں

ہر کسی کے ساتھ سایا ہے لگا
کوئ بھی تنہا نہیں ہے ہاں نہیں

ڈالتے ہو وحشتوں کا کیوں عذاب
آنکھ ہے صحرا نہیں ہے ہاں نہیں

چاند کو بے داغ کیسے میں کہوں
آپ کا چہرہ نہیں ہے ہاں نہیں

زندگی میں حسرتوں کے ماسویٰ
میں نے کچھ دیکھا نہیں ہے ہاں نہیں

مُنھ پہ کرتا ہے ستائش جو تری
وہ کبھی تیرا نہیں ہے ہاں نہیں

عشق کا سیلِ رواں ہے اور کیا
آگ ہے، دریا نہیں ہے ہاں نہیں

آنکھ ہے تو دیکھ لو تم کائنات
روشنی پردہ نہیں ہے ہاں نہیں

لگ گیا کِردار پر راشد تو پھر
داغ وہ جاتا نہیں ہے ہاں نہیں

راشد فضلی
_________________________________________

A Ghazal by Rashid Fazli

Monday, 30 April 2018

Ghazal : Yaad Kar Rahe Hain Ham Bhoolne Ki Baat Ko

غزل

یاد کر رہے ہیں ہم بھولنے کی بات کو
ترس گئے ہیں جب سے ہم اس کے التفات کو

ہم کو یقین کیسے ہو عشق کے دوام کا
ابھی تلک شکائتیں ہیں حسنِ بے ثبات کو

جو دن کی تپتی دھوپ میں کبھی نہ یاد آ سکیں
نہ جانے کیوں اُبھرتی ہیں وہ ساری باتیں رات کو

بکھرنا اپنے بس میں تھا سو ٹوٹ کر بکھر گیا
ہوائیں اب سمیٹتی ہیں میری اپنی ذات کو

کوئی بھی کہکشاں نہیں ہے ساحلِ خیال پر
کوئی سمیٹ لے گیا میری تجلّیات کو

یہ زندگی کا دائرہ کتنا بھی کم سہی مگر
اس نے سمیٹ رکھا ہے دنیائے شش جہات کو

خواہش کا زخم تھا کہ بس رِستا رہا تمام عمر
آنکھیں چھپا رہی تھیں اب اپنے تحیرات کو

راشد فضلی
_______________________

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Friday, 23 March 2018

Ghazal : Kabhi Teergi Se Gundha Hua Kabhi Raushni Se Daraa Hua

A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

کبھی تیرگی سے گُندھا ہوا کبھی روشنی سے ڈرا ہوا
وہی تشنگی کی نوِشت ہے تو ہے چہرا ایسا لکھا ہوا

مری اِس جبیں   کے فراز میں تری کائناتِ نجوم ہے
جہاں میں نے اپنی جبیں رکھی وہیں سجدہ تیرا ادا ہوا

ہے عجب یہ بے حِسی قلب کی میرے زندہ ہاتھ نہ اُٹھ سکے
وہی ہاتھ صرف ِدعا رہا جو تھا پتھروں میں ڈھلا ہوا*

میری ایک شب کی تھی زندگی جو کہ زادِ راہ میں کٹ گئی
میں تو راستے کا چراغ تھا نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

میں اِکائی ہوں ترے عشق کی مجھے آئینہ نہ دکھا کوئی
مجھے آئینے سے ڈرائے گا پسِ پردہ کوئی چھپا ہوا

اُسے سوچتے ہوئے کٹ گیا یہ تمام عمر کا اِک سفر
وہی تازہ چہرہ کِھلا ہوا وہی پھول جیسے دُھلاہوا

میں غزل میں اپنا لہو لکھوں کوئی اور اُس کو جو گائے گا
تجھے حرف حرف سنائے گا تُو ہے جاں پہ مری لکھا ہوا

یہ غرورِ عشق بتا ہے کیا وہی لمس  کا تو سوال ہے
یہ کمال ہے مرے ہاتھ کا جسے چھو دیا وہ خدا ہوا

راشد فضلی
 ______________________
*  شہر جدہ (سعودی عرب) کے ایک چوراہے پر دو ہاتھ پتھروں میں تراش کر دعا مانگتے ہوئے دکھایا گیا ہے. یہ شعر اسی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے.

Monday, 26 February 2018

Ghazal : Kaun Hai Kiska Socho Mat

A Ghazal by Rashid Fazli
ग़ज़ल

कौन है किसका सोचो मत
बंद आँखों को खोलो मत

ख़ुद से तन्हाई में जब
सामना हो तो देखो मत

सर्दी हो तो सर्द रहो
गर्मी हो तो खौलो मत

तन्हाई का तन्हा दर्द
तन्हा रहना छोड़ो मत

अपनों से भी कटता है
रस्ता अपना भूलो मत

रस्ते में खो जाओगे
अपने आप को ढूंडो मत

ज़िन्दा रहना है राशिद
ज़िन्दादिली को छोड़ो मत

राशिद फ़ज़ली
غزل

کون ہے کس کا سوچو مت
بند آنکھوں کو کھولو مت

خود سے تنہائی میں جب
سامنا ہو تو دیکھو مت

بَونا بَونا رٹتے ہو
اپنے قد کو تولو مت

سردی ہو تو سرد رہو
گرمی ہو تو کھولو مت

قرض چکاؤ ناخن کا
ناخن سے اب کھیلو مت

تنہائی کا تنہا درد
تنہا رہنا چھوڑو مت

اپنوں سے بھی کٹتا ہے
رستہ اپنا بھولو مت

غیرت سے مر جاؤ مگر
آگ میں خود کو جھونکو مت

رستے میں کھو جاؤ گے
اپنے آپ کو ڈھونڈو مت

پچھلا موسم یاد کرو
گھر سے باہر نکلو مت

زندہ رہنا ہے راشد
زندہ دلی کو چھوڑو مت

راشد فضلی
Ghazal by Rashid Fazli

Tuesday, 30 January 2018

Ghazal : Zamee Dil Mey Nazar Mey Ek Aasmaa Raha

A Ghazal by Rashid Fazli
غزل

زمیں دل میں نظر میں اک آسماں رہا
مرا وجود خلاؤں کے درمیاں رہا

مٹا وہ سارا اثاثہ جو خانداں کا تھا
بھرا دعاؤں سے دادی کا پانداں رہا

کہاں تھا چین میری زندگی کی قسمت میں
قدم قدم پہ سمجھ لو کہ امتحاں رہا

ہزار ٹکڑوں میں ٹوٹا بکھر گیا آخر
جو میری زیست کا سب سے بڑا گماں رہا

حصارِ ذات سے باہر نکل سکا نہ کبھی
ہر ایک لمحہ مجھے پاسِ خانداں رہا

ملی تھی دھوپ کڑی مجھ کو اپنے ورثے میں
ہمارے سر پہ خدا تیرا سائباں رہا

کسی سے کیا کہوں  میں نے اکیلے جنگ لڑی
ہزار لوگوں کی یوں توہین داستاں رہا

لبوں کو سینے کی کچھ رسم یوں چلی راشد
زباں منھ میں رہی پھر بھی بے زباں رہا

راشد فضلی
______________________________

ग़ज़ल

ज़मीं दिल में  नज़र में  एक आसमां रहा
मेरा  वजूद  ख़िलाओं  के   दरम्यां  रहा

मिटा वह सारा असासा जो ख़ानदां का था
भरा  दुआओं से  दादी  का  पानदां  रहा

कहाँ था चैन मेरी ज़िंदगी की क़िस्मत में
क़दम क़दम पे समझ लो कि इम्तेहां रहा

मिली थी धूप कड़ी मुझको अपने वरसे में
हमारे  सर  पे  ख़ुदा  तेरा  सायबां  रहा

लबों को सीने की कुछ रस्म यूं चली राशिद
ज़ुबां मुंह में  रही  फिर भी  बे-ज़ुबां  रहा

राशिद फ़ज़ली
Urdu Ghazal by Rashid Fazli