غزل
یاد کر رہے ہیں ہم بھولنے کی بات کو
ترس گئے ہیں جب سے ہم اس کے التفات کو
ہم کو یقین کیسے ہو عشق کے دوام کا
ابھی تلک شکائتیں ہیں حسنِ بے ثبات کو
جو دن کی تپتی دھوپ میں کبھی نہ یاد آ سکیں
نہ جانے کیوں اُبھرتی ہیں وہ ساری باتیں رات کو
بکھرنا اپنے بس میں تھا سو ٹوٹ کر بکھر گیا
ہوائیں اب سمیٹتی ہیں میری اپنی ذات کو
کوئی بھی کہکشاں نہیں ہے ساحلِ خیال پر
کوئی سمیٹ لے گیا میری تجلّیات کو
یہ زندگی کا دائرہ کتنا بھی کم سہی مگر
اس نے سمیٹ رکھا ہے دنیائے شش جہات کو
خواہش کا زخم تھا کہ بس رِستا رہا تمام عمر
آنکھیں چھپا رہی تھیں اب اپنے تحیرات کو
راشد فضلی
یاد کر رہے ہیں ہم بھولنے کی بات کو
ترس گئے ہیں جب سے ہم اس کے التفات کو
ہم کو یقین کیسے ہو عشق کے دوام کا
ابھی تلک شکائتیں ہیں حسنِ بے ثبات کو
جو دن کی تپتی دھوپ میں کبھی نہ یاد آ سکیں
نہ جانے کیوں اُبھرتی ہیں وہ ساری باتیں رات کو
بکھرنا اپنے بس میں تھا سو ٹوٹ کر بکھر گیا
ہوائیں اب سمیٹتی ہیں میری اپنی ذات کو
کوئی بھی کہکشاں نہیں ہے ساحلِ خیال پر
کوئی سمیٹ لے گیا میری تجلّیات کو
یہ زندگی کا دائرہ کتنا بھی کم سہی مگر
اس نے سمیٹ رکھا ہے دنیائے شش جہات کو
خواہش کا زخم تھا کہ بس رِستا رہا تمام عمر
آنکھیں چھپا رہی تھیں اب اپنے تحیرات کو
راشد فضلی
_______________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment