A Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
کبھی تیرگی سے گُندھا ہوا کبھی روشنی سے ڈرا ہوا
وہی تشنگی کی نوِشت ہے تو ہے چہرا ایسا لکھا ہوا
مری اِس جبیں کے فراز میں تری کائناتِ نجوم ہے
جہاں میں نے اپنی جبیں رکھی وہیں سجدہ تیرا ادا ہوا
ہے عجب یہ بے حِسی قلب کی میرے زندہ ہاتھ نہ اُٹھ سکے
وہی ہاتھ صرف ِدعا رہا جو تھا پتھروں میں ڈھلا ہوا*
کبھی تیرگی سے گُندھا ہوا کبھی روشنی سے ڈرا ہوا
وہی تشنگی کی نوِشت ہے تو ہے چہرا ایسا لکھا ہوا
مری اِس جبیں کے فراز میں تری کائناتِ نجوم ہے
جہاں میں نے اپنی جبیں رکھی وہیں سجدہ تیرا ادا ہوا
ہے عجب یہ بے حِسی قلب کی میرے زندہ ہاتھ نہ اُٹھ سکے
وہی ہاتھ صرف ِدعا رہا جو تھا پتھروں میں ڈھلا ہوا*
میری ایک شب کی تھی زندگی جو کہ زادِ راہ میں کٹ گئی
میں تو راستے کا چراغ تھا نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
میں اِکائی ہوں ترے عشق کی مجھے آئینہ نہ دکھا کوئی
مجھے آئینے سے ڈرائے گا پسِ پردہ کوئی چھپا ہوا
اُسے سوچتے ہوئے کٹ گیا یہ تمام عمر کا اِک سفر
وہی تازہ چہرہ کِھلا ہوا وہی پھول جیسے دُھلاہوا
میں غزل میں اپنا لہو لکھوں کوئی اور اُس کو جو گائے گا
تجھے حرف حرف سنائے گا تُو ہے جاں پہ مری لکھا ہوا
یہ غرورِ عشق بتا ہے کیا وہی لمس کا تو سوال ہے
یہ کمال ہے مرے ہاتھ کا جسے چھو دیا وہ خدا ہوا
راشد فضلی
______________________
* شہر جدہ
(سعودی عرب) کے ایک چوراہے پر دو ہاتھ پتھروں میں تراش کر دعا مانگتے ہوئے
دکھایا گیا ہے. یہ شعر اسی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے.
No comments:
Post a Comment