A Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
خون احساس کا ہی پیتے ہیں
لوگ مرتے نہیں تو جیتے ہیں
لوگ مرتے نہیں تو جیتے ہیں
ہم اُداسی کے مُلک میں رہ کر
درد سہتے ہیں خون پیتے ہیں
درد سہتے ہیں خون پیتے ہیں
ہو چکا ہے ز یاں تکلّم کا
ہم زباں اپنی آج سیتے ہیں
ہم زباں اپنی آج سیتے ہیں
آئينہ جا کے اُن کو دِکھلا دے
وہ جو تیرے بہت چہیتے ہیں
وہ جو تیرے بہت چہیتے ہیں
کس قدر بے حسی کا عالم ہے
لوگ پرچھائيں اپنی جیتے ہیں
لوگ پرچھائيں اپنی جیتے ہیں
چند لمحے بِتائيں ہیں خود سے
اور کچھ ہم پہ آکے بیتے ہیں
اور کچھ ہم پہ آکے بیتے ہیں
اب تو یہ بھی خبر نہیں راشد
بازی ہارے ہیں یا کہ جیتے ہیں
بازی ہارے ہیں یا کہ جیتے ہیں
راشد فضلی
No comments:
Post a Comment