سالہا سال سے ہم نئے سال میں
آتے جاتے رہے،
دُکھ اٹل ہے اور ہنسنا بھی اک رسم ہے
آج پھر ہم ہنسے اپنے زخموں پھ
جن کو کہ جھیلے ہوئے
سال کے سال بیتے
آج پھر ہم ہنسے،
اپنے آئندہ زخموں کی آمد یقینی ہوئی
بہتری کی تمنا کی کلیاں کِھلیں
دل سمجھنے لگا دُکھ کے یہ دن تو شاید گئے
پھر بھی ہمارا یہ "شاید"
ہر نئے سال کی ایک تنہا علامت رہا
بے یقینی کی ساری جہت آج روشن ہوئی
کل بھی روشن تھی لیکن کِسے یاد تھی
آتے جاتے رہے،
دُکھ اٹل ہے اور ہنسنا بھی اک رسم ہے
آج پھر ہم ہنسے اپنے زخموں پھ
جن کو کہ جھیلے ہوئے
سال کے سال بیتے
آج پھر ہم ہنسے،
اپنے آئندہ زخموں کی آمد یقینی ہوئی
بہتری کی تمنا کی کلیاں کِھلیں
دل سمجھنے لگا دُکھ کے یہ دن تو شاید گئے
پھر بھی ہمارا یہ "شاید"
ہر نئے سال کی ایک تنہا علامت رہا
بے یقینی کی ساری جہت آج روشن ہوئی
کل بھی روشن تھی لیکن کِسے یاد تھی
_____________
![]() |
| Naya Saal : Poetry by Rashid Fazli |



