Tuesday, 29 November 2016

Faiz Ke Naam


فیض کے نام

نگاہِ شوق سے ہر دل کا کاروبار چلے
مزہ تو جب ہے کہ نقشِ قدم پہ یار چلے

ہے جس کو اپنی محبت کی سرحدیں معلوم
نہ کوئے یار میں آئے، نہ سوئے دار چلے

دیارِ دوست سے اُٹھے تو پھر کدھر جائے
یہ ضد ہے اُن کی یہاں سے ہر اک غبار چلے

وہی تھے زیست کے حاصل، وہی حقیقت تھے
جو لمحے تیرے خیالوں میں ہم گزار چلے

بچھڑ کے تجھ سے یہ عالم ہے بد حواسی کا
زمانے بھر کو تیرے نام سے پکار چلے

تیرے خیال سے نکلے تو خود سے دور ہوئے
یہ زندگی بھی تجھی پر مگر نثار چلے

راشد فضلی
______________Find Rashid Fazli on Facebook.______________
 
फ़ैज़ के नाम

निगाहे शौक़ से हर दिल का कारोबार चले
मज़ा तो जब है कि नक़्शे क़दम पे यार चले

दयारे दोस्त से उठे तो फिर किधर जाये
ये ज़िद है उनकी यहाँ से हर इक ग़ुबार चले

वही थे ज़ीस्त के हासिल, वही हक़ीक़त थे
जो लम्हे तेरे ख़्यालों में हम गुज़ार चले

बिछ्ड़ के तुझसे यह आलम है बदहवासी का
ज़माने भर को तेरे नाम से पुकार चले

तेरे ख़्याल से निकले तो ख़ुद से दूर हुये
ये ज़िन्दगी भी तुझी पर मगर निसार चले
 
राशिद फ़ज़ली
 
Faiz Ke Naam : Rashid Fazli

Tuesday, 18 October 2016

Ghazal : Dil Mey Jo Kuch Hai Bataun Kaise

غزل~:~
 دل میں جو کچھ ہے بتاؤں کیسے
تجھکو، تجھ سے ہی چھپاؤں کیسے

وہ یقیں ہو کے گماں لگتا ہے
اُس کو آنکھوں میں بساؤں کیسے

زندگی دردِ مجسم ہے مگر
جیتے جی خود کو بچاؤں کیسے

ہر قدم درد بڑھاتی جائے
ایسی دنیا سے نبھاؤں کیسے

آگ لگنے سے دھواں اُٹھتا ہے
دل کو جلنے سے بچاؤں کیسے

راستے میں جسے کھویا تھا کبھی
اپنے گھر اُس کو بلاؤں کیسے

کتنی یادوں کا پری خانہ ہے
اپنے اِس گھر کو جلاؤں کیسے
~:~
 راشد فضلی

A Ghazal by Rashid Fazli

______________Find Rashid Fazli on Facebook.______________


A Ghazal by Rashid Fazli
 ग़ज़ल
~:~
 दिल में जो कुछ है बताऊँ कैसे
तुझको, तुझ से ही छुपाऊँ कैसे

वह यक़ीं होके गुमाँ लगता है
उसको आँखों में बसाऊँ कैसे

हर क़दम दर्द बढ़ाती जाये
ऐसी दुनिया से निभाऊँ कैसे

आग लगने से धुआँ उठता है
दिल को जलने से बचाऊँ कैसे

कितनी यादों का परीख़ाना है
अपने इस घर को जलाऊँ कैसे
~:~
राशिद फ़ज़ली

Sunday, 25 September 2016

Tarhi Ghazal : Hazaar Lamhon Ka Ek Lamha Dabaa Ke Aahat Guzar Gya Woh

Rashid Fazli Urdu Poetry
Tarhi Ghazal by Rashid Fazli

طرحی غزل

ہزار لمحوں کا ایک لمحہ دبا کے آہٹ گزر گیا وہ
نئی جہت کا سراغ دے کر فصیلِ جاں پہ بکھر گیا وہ

سنہرے خوابوں کی جستجو میں جو زندگی بھر بھٹک رہا تھا
بس ایک پل میں ہزاروں دامن سنہرے پھولوں سے بھر گیا وہ

دھنک جو پھولی تو تازہ چہرہ کسی کا آنکھوں میں آ سمایا
شفیق رنگوں میں یادیں دے کر نہ جانے کب کا بکھر گیا وہ

سنہرے خوابوں کی آرزوئیں پیاسی آنکھوں کی داستانیں
ہنوز باقی ہیں شب کی خاطر لٹا کے یوں جام گھر گیا وہ

شبوں کا منظر دُھواں دُھواں تھا خیال بھی کچھ رُکا رُکا تھا
جمود آنکھوں کا توڑ ڈالا اِدھر سے آیا اُدھر گیا وہ

خزاں رسیدہ سے زرد پتے کسی کی آہٹ کے منتظر تھے
بہاریں لوٹیں خزاں کی جانب بہار لے کر جدھر گیا وہ

نہیں تھا ممکن کہ اَپنی آنکھوں کے اِن جزیروں میں قید کرتا
طلسمِ ہوش و رُبا تھا شاید گماں کی حد سے گزر گیا وہ

راشد فضلی

Sunday, 11 September 2016

Ghazal : Mai Iss Ghar Mey Jangal Ugta Dekh Raha HuN

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

غزل

میں اِس گھر میں جنگل اُگتا دیکھ رہاہوں
ویرانی کا بڑھتا دریا ۔ دیکھ رہا ہوں بے

سائے ہیں گھر کے چہرے گھر کے لوگ
دیواروں پر سایا سایا دیکھ رہا ہوں

آئینوں میں کچھ تصویریں دھندلی یادیں
اِن آنکھوں میں کس کو مرتا دیکھ رہا ہوں

پچھلے برس تو تیری یادیں ساتھ رہیں
اَب کے برس میں خود کو تنہا  دیکھ رہا ہوں

اَپنی نظر میں  بے چہرے ہیں سارے عکس
آئینوں میں تیرے جیسا دیکھ  رہا ہوں  

یہ دن بھی آخر آنکھوں  نے دکھا دیا
دھوپ  میں جلتا سایا اَپنا دیکھ رہا ہوں

تجھ سے بچھڑ کر اِن راہوں میں یہ بھی ہوا
رستہ چلتے ایک اِک چہرہ دیکھ رہا ہوں

راشد فضلی

______________________________________

ग़ज़ल

मैं इस घर में जंगल उगता देख रहा हूँ
वीरानी का बढ़ता दरिया – देख रहा हूँ

बे-साये हैं घर के चेहरे घर के लोग
दीवारों पर साया साया देख रहा हूँ

पिछले बरस तो तेरी यादें साथ रहीं
अबके बरस मैं ख़ुद को तन्हा देख रहा हूँ

यह दिन भी आख़िर आँखों ने दिखा दिया
धूप में जलता साया अपना देख रहा हूँ

तुझ से बिछड़ कर इन राहों में यह भी हुआ
रस्ता चलते एक इक चेहरा देख रहा हूँ

राशिद फ़ज़ली

Rashid Fazli Urdu Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Wednesday, 1 June 2016

Ghazal : Har Ek Ghar Ki Zaroorat Ho Gai Hai

A Ghazal by Rashid Fazli
غزل

ہر اِک گھر کی ضرورت ہو گئی ہے
یہ دنیا ایک عورت ہو گئی ہے

میں لفظوں کے سفر میں ڈھونڈھتا ہوں
غزل میری ضرورت ہو گئی ہے

ہے اپنی سادگی میں بھی دھنک رنگ
وہ لڑکی خوبصورت ہو گئی ہے

ملی ہے بھیک کی مانند اکثر
مجھے شہرت سے نفرت ہو گئی ہے

میرے گھر میں ہے بوڑھی ایک دادی
جو اب مٹی کی مورت ہو گئی ہے

میں خدّ و خال اپنے بیچتا ہوں
یہی جینے کی صورت ہو گئی ہے

کہاں اب گھر بناؤ گے تم اپنا
دلوں میں تو کدورت ہو گئی ہے

راشد فضلی

+++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++++ 

ग़ज़ल

हर एक घर की ज़रूरत हो गई है
ये दुनिया एक औरत हो गई है

मैं लफ़्ज़ों के सफ़र में ढूँढता हूँ
ग़ज़ल मेरी ज़रूरत हो गई है

है अपनी सादगी में भी धनक रंग
वह लड़की ख़ूबसूरत हो गई है

मिली है भीक की मानिंद अक्सर
मुझे शोहरत से नफ़रत हो गई है

मेरे घर में है बूढ़ी एक दादी
जो अब मिट्टी की मूरत हो गई है

मैं ख़द्दो ख़ाल अपने बेचता हूँ
यही जीने की सूरत हो गई है

कहाँ अब घर बनाओगे तुम अपना
दिलों में तो कुदूरत हो गई है

राशिद फ़ज़ली
An Urdu Ghazal by Rashid Fazli
* یہ غزل ١٨ دسمبر ٢٠١٣ کو پہلے بھی یہاں شامل کی جا چکی ہے.