![]() |
| Tarhi Ghazal by Rashid Fazli |
طرحی غزل
ہزار لمحوں کا ایک لمحہ دبا کے آہٹ گزر گیا وہ
نئی جہت کا سراغ دے کر فصیلِ جاں پہ بکھر گیا وہ
سنہرے خوابوں کی جستجو میں جو زندگی بھر بھٹک رہا تھا
بس ایک پل میں ہزاروں دامن سنہرے پھولوں سے بھر گیا وہ
دھنک جو پھولی تو تازہ چہرہ کسی کا آنکھوں میں آ سمایا
شفیق رنگوں میں یادیں دے کر نہ جانے کب کا بکھر گیا وہ
سنہرے خوابوں کی آرزوئیں پیاسی آنکھوں کی داستانیں
ہنوز باقی ہیں شب کی خاطر لٹا کے یوں جام گھر گیا وہ
شبوں کا منظر دُھواں دُھواں تھا خیال بھی کچھ رُکا رُکا تھا
جمود آنکھوں کا توڑ ڈالا اِدھر سے آیا اُدھر گیا وہ
خزاں رسیدہ سے زرد پتے کسی کی آہٹ کے منتظر تھے
بہاریں لوٹیں خزاں کی جانب بہار لے کر جدھر گیا وہ
نہیں تھا ممکن کہ اَپنی آنکھوں کے اِن جزیروں میں قید کرتا
طلسمِ ہوش و رُبا تھا شاید گماں کی حد سے گزر گیا وہ
راشد فضلی
ہزار لمحوں کا ایک لمحہ دبا کے آہٹ گزر گیا وہ
نئی جہت کا سراغ دے کر فصیلِ جاں پہ بکھر گیا وہ
سنہرے خوابوں کی جستجو میں جو زندگی بھر بھٹک رہا تھا
بس ایک پل میں ہزاروں دامن سنہرے پھولوں سے بھر گیا وہ
دھنک جو پھولی تو تازہ چہرہ کسی کا آنکھوں میں آ سمایا
شفیق رنگوں میں یادیں دے کر نہ جانے کب کا بکھر گیا وہ
سنہرے خوابوں کی آرزوئیں پیاسی آنکھوں کی داستانیں
ہنوز باقی ہیں شب کی خاطر لٹا کے یوں جام گھر گیا وہ
شبوں کا منظر دُھواں دُھواں تھا خیال بھی کچھ رُکا رُکا تھا
جمود آنکھوں کا توڑ ڈالا اِدھر سے آیا اُدھر گیا وہ
خزاں رسیدہ سے زرد پتے کسی کی آہٹ کے منتظر تھے
بہاریں لوٹیں خزاں کی جانب بہار لے کر جدھر گیا وہ
نہیں تھا ممکن کہ اَپنی آنکھوں کے اِن جزیروں میں قید کرتا
طلسمِ ہوش و رُبا تھا شاید گماں کی حد سے گزر گیا وہ
راشد فضلی

No comments:
Post a Comment