A Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
بے برگ و ثمر ہو تو شجر کیسے کہوں گا
پھر دشت کو دریا کا سفر کیسے کہوں گا
مَر جاتی ہے دب کر کوئی خواہش مرے دل میں
گرتی ہوئی دیوار کو گھر کیسے کہوں گا
صد پروۂ خلوت میں چمکتی ہے مری روح
دل میں ہے مرے شمس و قمر کیسے کہوں گا
بے مایۂ و بے کس ہی سہی، تیری حیا ہوں
ہو جائے تری ایک نظر کیسے کہوں گا
احساس کے بادل میں چھپا ہے کوئی سورج
یہ دن کا اجالا ہے مگر کیسے کہوں گا
میں تیرے لئے ہجر کی اِک بہتی ہوا ہوں
تُو آ مجھے آغوش میں بھر کیسے کہوں گا
اِس دن کے اُجالے میں تو دِکھتا نہیں کچھ بھی
دیکھا تھا کوئی خواب نگر کیسے کہوں گا
مخدوش ہے یہ گھر بھی جو ہے تیری امانت
تُو آ کے میری جاں میں اُتر کیسے کہوں گا
اِک مصرعۂ آوارہ تو اُٹھتا نہیں مجھ سے
آتا ہے غزل کا بھی ہُنر کیسے کہوں گا
~
راشد فضلی
No comments:
Post a Comment