غزل
بزمِ سخن میں اپنا ہنر لے کے آ گیا
تھا میرے پاس خونِ جگر لے کے آ گیا
تھا میرے پاس خونِ جگر لے کے آ گیا
تھی مجھ پہ اُس کی جو بھی نظر لے کے آ گیا
میں اپنے ساتھ رختِ سفر لے کے آ گیا
میں نے کہا جو پھول کبھی باغ میں اُسے
پھر یہ ہوا وہ میری نظر لے کے آ گیا
ٹھہراؤ اب نہیں ہے کسی خوش خیال پر
پاؤں جو میرا شوقِ سفر لے کے آ گیا
تجھ کو بھی چُھو ہی لوں گا میں اوجِ کمال پر
میرا خیال دیکھ جو پر لے کے آ گیا
کوئی ہوا نہ دنیا کی اُس کو سُکھا سکی
دامن تیرے حضور میں تر لے کے آ گیا
چاہا یہ کب تھا اُس کا پتہ غیر سے ملے
تو کون ہے جو اُس کی خبر لے کے آ گیا
دیکھا تھا خواب میں کبھی روشن سی صبحِ نَو
یوں خواب میں تو خیر، سحر لے کے آ گیا
دیکھو کہ اُس کی شام و سحر جُھومنے لگی
راشد خمارِ شب کا اثر لے کے آ گیا
راشد فضلی
_____________________________________
![]() |
| A Ghazal by Rashid Fazli |

