کوئریاپار کا منظر
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ کچے گھروں کی منڈیریں
کہ جس پر،
ہرے، نیلے، اودے، سنہرے پروں کی
نئی خوش گلو، خوش بیاں
اور ساون کے قطروں سے بھیگی ہوئی
وہ چھوٹی سی معصوم چڑیاں
بسیر فگن تھیں،
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ کھڑکی کہاں ہے
جہاں سے کنواری، سلونی سی مٹی کی خوشبو اُڑی تھی
وہ چوکھٹ کہاں ہے
جسے سُرخ سیندور کی غیر مرئی سی آہٹ کی امید تھی
وہ آنگن کہاں ہے
جہاں آم کی ڈالیاں اپنے جھولوں کا پُرکش نظارہ لئے
ہر کنوارے بدن کی کھنکتی ہنسی لیکے خود جھومتی تھیں
وہ خوابیدہ آنکھوں میں پھیلی دھنک کی سواری
وہ پیپل کا پھیلا ہوا ایک خاموش سایہ
وہ سارے نظارے کہاں ہیں
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ سارے کبوتر جو اُن سے اُڑے تھے
ابھی تک فضاؤں میں کیوں دربدر ہیں


