Tuesday, 26 February 2013

نظم : بازگشت

کوئریاپار کا منظر


وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ کچے گھروں کی منڈیریں
کہ جس پر،
ہرے، نیلے، اودے، سنہرے پروں کی
نئی خوش گلو، خوش بیاں
اور ساون کے قطروں سے بھیگی ہوئی
وہ چھوٹی سی معصوم چڑیاں
بسیر فگن تھیں،
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ کھڑکی کہاں ہے
جہاں سے کنواری، سلونی سی مٹی کی خوشبو اُڑی تھی
وہ چوکھٹ کہاں ہے
جسے سُرخ سیندور کی غیر مرئی سی آہٹ کی امید تھی
وہ آنگن کہاں ہے
جہاں آم کی ڈالیاں اپنے جھولوں کا پُرکش نظارہ لئے
ہر کنوارے بدن کی کھنکتی ہنسی لیکے خود جھومتی تھیں
وہ خوابیدہ آنکھوں میں پھیلی دھنک کی سواری
وہ پیپل کا پھیلا ہوا ایک خاموش سایہ
وہ سارے نظارے کہاں ہیں
وہ ساری منڈیریں کہاں ہیں
وہ سارے کبوتر جو اُن سے اُڑے تھے
ابھی تک فضاؤں میں کیوں دربدر ہیں

راشدؔ فضلی


Rashid Fazli Poetry

Monday, 18 February 2013

غزل : مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے

 
مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اس پیڑ کے سائے میں بھی کیوں اتنی گھٹن ہے
ہیں سبز یہ پتے تو ہوا کیوں نہیں دیتے
جس خون میں آ جائے سفیدی کی ملاوٹ
اس خون کو آنکھوں سے بہا کیوں نہیں دیتے
آئینے ستاتے ہیں تو چہرے کو نہ دیکھو
آنکھوں میں چمک ہے تو بجھا کیوں نہیں دیتے
اس عرصہء خاموش میں ہم تنہا کھڑے ہیں
ہو درد ہمارا تو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ جو پیچھے ہیں وہ پنجوں پہ کھڑے ہیں
قد اپنا یہ تھوڑا سا گھٹا کیوں نہیں دیتے
ہے آگ کا یہ کھیل تو پھر سوچنا کیسا
خود اپنا بدن آپ جلا کیوں نہیں دیتے
وہ بات جو پڑھتے رہے آنکھوں میں ہماری
وہ سارے زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے
                                                         راشدؔ فضلی
____________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli