غزل
جو تھے جیسے تھے تم، اچھے لگتے تھے
دور تھے لیکن کتنے اپنے لگتے تھے
اب کے شہر میں صورت کو بھی ترسے ہم
پہلے سارے چہرے چہرے لگتے تھے
چاندی سونے جیسے وہ دن کہاں گئے
تانبے کے جب سکے پیسے لگتے تھے
پہلے گھروں میں بٹوارہ کب ہوتا تھا
جو آتے تھے ساتھ میں رہنے لگتے تھے
بیچ کی اک دیوار نے ہم کو الگ کیا
یوں تو ہم دونوں ہم سائے لگتے تھے
اب تو ہر چہرے پر دوسرا چہرہ ہے
پہلے لوگ تھے جیسے ویسے لگتے تھے
پچھلی نسلوں کا یہ شیوہ بھی اچھا تھا
اچھوں کو سب اچھا کہنے لگتے تھے
راشد فضلی
_________________________
![]() |
| A Ghazal by Rashid Fazli |
Find Rashid Fazli on Facebook -
