غزل
تیرے اندر ہے چھپا، پاگل ہوا کہہ کر گئی
تُو نہیں اِک دوسرا، پاگل ہوا کہہ کر گئی
تیرے اندر ہے چھپا، پاگل ہوا کہہ کر گئی
تُو نہیں اِک دوسرا، پاگل ہوا کہہ کر گئی
ہجر کا سودا کرو اور درد میں لذّت نہ ہو
یہ بھی ہے اِک سانحہ پاگل ہوا کہہ کر گئی
سارا شہر ِجاں جلا کر، بجھ چکا ہو جو دیا
پھر نہ اس کو تُو جلا پاگل ہوا کہہ کر گئی
ریت کی دیوار پر چھت ڈال کر بیٹھا اگر
خودکُشی دیگی صدا پاگل ہوا کہہ کر گئی
ہاں بصارت پر مری دیوار بھی حائل نہیں
مجھ سے خود کو نا چھپا پاگل ہوا کہہ کر گئی
کتنے کپڑے موسموں کے یوں بدل ڈالے مگر
رہ گیا سب دھول سا، پاگل ہوا کہہ کر گئی
خود ساختہ مینار پر چڑھ کر کہا، میں ہوں یہاں
جب آدمی پاگل ہوا پاگل ہوا کہہ کر گئی
کون سمجھے گا غزل کا رنگ لفظوں سے ترے
اپنے جذبوں کو سُلا پاگل ہوا کہہ کر گئی
راشد فضلی
_______________________________
![]() |
| A Ghazal by Rashid Fazli |
