Thursday, 12 September 2013

غزل : کل رات خواب دیکھا تھا آنکھوں میں ہے خمار

کل رات خواب دیکھا تھا آنکھوں میں ہے خمار
دیکھا تھا جس کو اس کا ابھی تک ہے انتظار

ہر آئینے پہ چھایا ہے دودِ رواں کا عکس
دیکھوں کہاں میں اپنے خیالوں کا سبزہ زار

لے کے اڑا ہے شاخ سے پتوں کی ٹولیاں
یوں گنگنا رہا ہے ہواؤں کا آبشار

کیوں دے رہا ہے شعروں میں لفظوں سے اک فریب
جو دل میں تیرے ہے اسے بھی تو تو پکار

دیکھا نہیں ہے آنکھوں سے، محسوس تو کیا
کرنا پڑا یوں، اس کے بھی ہونے کا اعتبار

جو ہر سراب زیست کے جسموں کا ڈھک گیا
اس زر نگار خواب کے کپڑے نہ تو اتار

ھم آتشِ فریب سے جل کے ہوئے ہیں راکھ
رکھ دے ہماری خاک میں چاہت کا اک شرار

بہروپ تیرا آئینۂ جاں میں آ بسا
اب روپ کوئی اور میرے سامنے نہ دھار

راشد فضلی
_______________

A Ghazal by Rashid Fazli