Saturday, 27 April 2013

نظم : جنگ ! ایک المیہ

جنگ ! ایک المیہ

(ایران اور عراق جنگ سے متاثر ہوکر)

ابھی جنگ جاری رہے گی
کہ اپنے لہو میں حرارت وہی ہے
یہ مذہب بھی اپنا وہی ہے
زمیں کی قبا ایک ہے جس پہ دو حصے ایسے بنے ہیں
وہاں تم کھڑے ہو
یہاں میں کھڑا ہوں
ابھی جنگ جاری رہے گی........
کہ بچوں کو اپنے،
سکھایا ہے ہم نے
لہو کی وہ قیمت جو ماں باپ پہلے سے طے کر چکے ہیں
چُکانا پڑیگی،
وہ معصوم بچے جو یہ جانتے تک نہیں ہیں
کہ سرحد پہ دشمن ہمارا، ابھی دودھ کی بوتلیں چھوڑ کر آ گیا ہے
وہ کیوں لڑ رہا ہے،
کسی ایک نے یہ کہا کہ ہمیں تو یہاں
میرے اُسی باپ کی ضد نے لا کر کھڑا کر دیا ہے
جو یہ چاہتا ہے کہ اپنی لحد میں پہنچنے سے پہلے
زمیں کی حدوں کا،
وہ بچوں کی خاطر تعین کرے
تاکہ قبروں پہ اپنے ہی بچوں کے ناموں کی تختی لگے
ابھی جنگ جاری رہے گی........
کہ دو سرحدوں سے پرے کچھ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
ایک ہی وقت میں،
ایک ہی جسم کی دونوں آنکھوں کو کھانے کو،
تیار بیٹھے ہوئے ہیں
ابھی جنگ جاری رہے گی........
کہ سرحد کے اس پار بیٹھے ہوئے گدھ
سبھی سو رہے ہیں...... مگر دیکھتے ہیں
انہیں صبح کے ناشتے تک پہنچنے میں اک رات کافاصلہ ہے
ابھی جنگ جاری رہے گی........


راشد فضلی
________________________

Jung : A Poem by Rashid Fazli

Friday, 5 April 2013

نظم : جبر

میں نے اپنی گزاری شبوں پر
اپنی آنکھوں کو پھیلا کے دیکھا
کتنے خوابوں کے پوشیدہ لمس
ان اندھیرے سے لمحوں میں،
جن میں میں اکثر جیا بھی نہیں
گدگداتے رہے،
میں ہنسا جیسے ہنسنا بھی اک کام تھا،
میں وہاں بھی نہیں تھا، جہاں میرے آنسو کی قیمت
محبت کی جھوٹی ترازو میں تولی گئی،
مجھے وقت نے اپنے ہاتھوں میں جکڑا
مگر جس کو جکڑا میرا جسم تھا
میں وہاں بھی کہاں تھا،
سزا بھی میری یہ مقرر ہوئی
کہ دیوار پر اک نوشتہ بنوں
میں نوشتہ بنا،
آئینے میرے چارو طرف، اپنی نظروں سے یلغار کرنے لگے
میں جو سہما ہوا لفظ تھا، بے سہارا ہوا
لوگ کہنے لگے “خواب دیوار پر ٹانکنے کا عمل
صرف ایسی ہی آنکھوں کے ہاتھوں میں ہے
جو کہ نابینا ہوں” 
درد دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر
اپنے الفاظ ناطق بھی گونگے ہوئے
کون کس کو پڑھے، کون کس کو سنے
ایک دیوار ہے جس پہ کچھ لفظ باقی بچے رہ گئے ہیں
جہاں میں نہیں ہوں
وہ میری سزا تو نہ جانے کبھی کی اٹھا لی گئی ہے.

راشد فضلی 

Rashid Fazli Poetry